مقبوضہ بیت المقدس – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کے سنہ 1948ء کی جنگ میں صہیونی ریاست کے زیر تسلط آنے والے علاقوں میں بسنے والے فلسطینی باشندوں کی بھاری اکثریت Â صہیونی ریاست کی مجرمانہ نسل پرستانہ پالیسیوں کا واضح Â شکار ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق مقبوضہ فلسطینی شہریوں میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم نے حال ہی میں رائے عامہ کا ایک جائزہ لیا جس کے چونکا دینے والے نتائج سامنے آئے ہیں۔جزیرہ نما النقب میں فلسطینی شہریوں کے مکانات مسماری کے لیے کیے جانے والے کریک ڈاؤن کے بعد سرے مرکز کی جانب سے فلسطینی شہریوں کی رائے عامہ کے حصول کے لیے ایک سروے کا اہتمام کیا۔ رپورٹ میں 95 فی صد رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی ریاست کی ظالمانہ پالیسیوں کے نتیجے میں عدم مساوات کا شکار ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صہیونی ریاست کی دانستہ مجرمانہ نسل پرستانہ پالیسیوں کے نتیجے میں فلسطینی عرب آبادی صحت، تعلیم، جان ومال کی حفاظت اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سنہ 1948ء کے علاقوں میں بسنے والے 95 فی صد فلسطینی صہیونی نسل پرستانہ پالیسیوں کا سامنا کررہے ہیں۔
رپورٹ میں حصہ لینے والے 63 فی صد فلسطینیوں نے اسرائیل کو ایک نسل پرست ریاست قرار دیا اور کہا ہے کہ فلسطینی آبادی کے ساتھ صہیونی ریاست نسلی منافرت پرمبنی سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔ سروے کے مطابق اندرون فلسطین سے فلسطینی آبادی کی نمائندگی کرنے والے عرب اتحاد کی کارکردگی کے بارے میں بھی سوال پوچھے گئے۔ اس موقع پر 26 فی صد رائے دہندگان نے کہا کہ وہ عرب اتحاد کی کاکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ جب کہ 32 فی صد رائے دہندگان نے عرب اتحاد کی کارکردگی پراطمینان کا اظہار کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی آبادی کو بنیادی حقوق بھی میسر نہیں ہیں جب کہ یہودیوں کو ہرطرح کی سہولیات میسر ہیں۔ فلسطینی اور یہودی آبادی کے درمیان عدم مساوات کا واضح فرق موجود ہے۔ اسرائیلی انتظامیہ فلسطینی شہریوں کے بنے بنائے گھر مسمار کرتی اور فلسطینیوں کو نئے گھر بنانے پرپابندیاں عائد کرتی ہے۔ فلسطینیوں کو علاقے چھوڑنے کے لیے مجرمانہ ہتھکنڈوں کا سامنا رہتا ہے جب کہ یہودی آباد کاروں کو جہاں چاہیں گھر بنانے کی کھلی اجازت ہے۔ فلسطینی شہریوں کے بچوں کو تعلیمی شعبے میں یہودی بچوں کے برابر سہولیات میسر نہیں ہیں۔ اسپتالوں میں بھی یہودیوں کو فلسطینیوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔ فلسطینی مریضوں کے علاج معالجے میں ٹال مٹول سے کام لیاجاتا ہے جب کہ یہودیوں کو ہرطرح کے علاج کی مفت سہولیات میسر ہیں۔