اس رپورٹ میں 8 قوانین پر روشنی ڈالی گئی ہے جو سنہ 2016ء کے دوران منظور کیے گئے تھے۔
اسیران اسٹڈی سینٹرکے ترجمان ریاض الاشقر کا کہنا ہے کہ صہیونی پارلیمنٹ کی جانب سے جو نئے قوانین منظور کیے گئے ان کا اصل ہدف اور مقصد اسیران پر قدغنیں عائد کرنا اور ان کے حقوق پامال کرنا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی اسیران پر قدغنوں اور ظالمانہ قوانین میں صہیونی ریاست کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں پیش پیش رہی ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ صہیونی پارلیمنٹ کو فلسطینی اسیران کے خلاف اور عام فلسطینی شہریوں کے خلاف قانون سازی کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں ہے۔
گذشتہ برس اسرائیلی پارلیمنٹ میں جو قانون منظور کیے گئے ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ بعض قوانین منظور کیے گئے اور بعض پر بحث کی گئی مگران کی منطوری معرض التواء میں رکھی گئی ہے۔
پھانسی کی سزا بحال کرنے کا قانون
اسرائیل کے انتہا پسند سیاست دان آوی گیڈور لائبرمین کے صہیونی ریاست کے وزیر دفاع منتخب ہونے کے بعد پارلیمنٹ میں ایک مسودہ قانون دوبارہ پیش کیا گیا۔ اس قانونی مسودے میں اسرائیلیوں کے قتل میں ملوث فلسطینیوں کو سزائے موت دینے کی سفاش کی گئی تھی۔
یہ متنازع مسودہ قانون ’اسرائیل بیتنا‘ نامی گروپ کی طرف سے پیش کیا گیا۔ اس سے قبل یہ قانون سنہ 2015ء میں کابینہ میں پیش کیا گیا تھا۔ کابینہ نے اس قانون پربحث کے لیے خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔
نام نہاد انسداد دہشت گردی قانون
اسرائیلی پارلیمنٹ نے نام نہاد انسداد دہشت گردی قانون 15 جون 2016ء کو کثرت رائے سے منظور کیا۔ اس قانون کے تحت مزاحمتی کارروائیوں میں ملوث فلسطینیوں کو 25 سال قید کی سزا کی منظوری دی گئی۔ اس کے علاوہ کسی بھی فلسطینی تنظیم کے سربراہ کو 15 Â سال قید کی سزا کی سفارش کی گئی۔ اس کے علاوہ کسی بھی فلسطینی قیدی کی سزا میں کمی کے لیے صدر کو حاصل اختیارات ختم کیے گئے سزا میں تخفیف کا اختیار کابینہ کو اس شرط پر دیا گیا کہ اگر عمر قید کا سزا یافتہ فلسطینی اپنی اسیری کے 15 سال قید کاٹ چکا ہے تو کابینہ اس کی سزا میں تخفیف کی مجاز ہوگی ورنہ نہیں۔
کم سن فلسطینی بچوں کے لیے کڑی سزائیں
اسرائیلی کنیسٹ میں گذشتہ برس ایک نیا مسودہ قانون منظور کیا گیا جس میں 14 سال Â سے کم عمر کے فلسطینی بچوں کو مزاحمتی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی پاداش میں 3 سال قید کی سزا کی منظوری دی گئی۔
فلسطینی اسیران کا پنشن اور معذوری الاؤنس بند
گذشتہ برس اسرائیلی پارلیمنٹ کی آئینی کمیٹی نے ایک نئے مسودہ قانون کی منظوری دی گئی جس میں قرار دیا گیا ہے کہ سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی شہروں سے تعلق فلسطینی اسیران کے معذوری اور ریٹائرمنٹ الاؤنس بند کیے گئے۔
اسی قانون کے تحت اندرون فلسطین سے تعلق رکھنے والے ایسے فلسطینی جو اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینے کے مرتکب پائے جائیں انہیں وراثت کے حقوق سے بھی محروم کیا جاسکے گا۔
موبائل فون کے استعمال کی روک تھام Â کا قانون
گذشتہ برس اسرائیلی پارلیمنٹ میں داخلی سلامتی کے وزیر کی جانب سے ایک مسودہ قانون پیش کیا گیا جس میں پارلیمنٹ سے جیلوں میں جدید مواصلاتی آلات نصب کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس قانون کے نفاذ کا مقصد جیلوں میں موجود فلسطینی اسیران کے پاس موبائل فون پکڑنے کے لیے جدید آلات کا استعمال ہے۔ یہ قانون بھی منظور کیا گیا اور پہلے مرحلے میں اس قانون کی منظوری کے بعد ایچل اور نفحہ جیلوں میں جدید آلات نصب کرنا اور فلسطینی اسیران کو موبائل کی سہولیات سے محروم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
قیدیوں پر تشدد کی اجازت کا قانون
صہیونی پارلیمنٹ میں گذشتہ برس فلسطینی اسیران کے خلاف منظور ہونے والے قوانین میں فلسطینی اسیران پر تشدد کی اجازت دینے کا قانون بھی شامل تھا۔ اس قانون کے تحت اسرائیلی پارلیمنٹ نے فلسطینی اسیران کی تصاویر اور آواز کی توثیق کے لیے پولیس اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو اسیران پر تشدد کی اجازت دی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس قانون کے تحت اعترافات کے حصول کے لیے قیدیوں کو اذیتیں دینے کا حق دیا گیا اور تفتیش کاروں کو مزید پانچ سال تک اپنے جرائم کو خفیہ رکھنے کا حق دیا گیا۔
اسیران کو بنیادی اشیاء سے محروم رکھنے کا قانون
صہیونی انتظامیہ کی جانب سے گذشتہ برس ایک نیا قانون منظور کیا گیا۔ اس قانون کا اطلاق جزیرہ نما النقب کی جیل میں کیا گیا۔ اس قانون کے تحت فلسطینی قیدیوں کے اہل خانہ پر پابندی عائد کی گئی کہ وہ تین ماہ سے کم عرصے میں اپنے اسیر اقارب کو کپڑے اور دیگر ضروریات فراہم نہیں کرسکیں گے۔ سردیوں کے موسم میں صرف 12ویں مہینے میں اسیران کو گرم کپڑے مہیا کرنے کی اجازت دی گئی۔
اسیران سے ملاقاتوں کا عرصہ محدود کرنے کا قانون
گذشتہ برس فلسطینی اسیران کے خلاف منظور کردہ قوانین میں اسیران کے اقارب کے ساتھ ملاقاتوں کو محدود کرنا بھی شامل ہے۔ یہ قانون انسانی حقوق کی تنظیم ریڈ کراس پر بھی پابندیوں کے لیے منظور کیا گیا کیونکہ اسیران کے ساتھ ان کے اقارب کی ملاقاتوں کا اہتمام کرانے میں ریڈ کراس کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ اس نئے قانون کے تحت کسی بھی فلسطینی اسیر سے اس کا کوئی رشتہ دار یا دوست صرف دو ماہ میں ایک بار ہی ملاقات کرسکتا ہے۔