فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق زندگی بھر فلسطینی قوم کے دفاع میں سرگرم رہنے والے شامی نژاد عرب عیسائی پادری ہیلاریون کابوچی مسئلہ فلسطین کے فوری حل کے خواہاں تھے۔ انہوں نے پوری قوم کو جسد واحد قرار دیا اور کہا تھا کہ فلسطین پر یہودیوں کی ریاست کے قیام کا کوئی جواز نہیں۔ فلسطینی قوم کے تمام طبقات(مسلمانوں اور عیسائیوں) کو مل کر صہیونی ریاست کے خلاف جدو جہد کرنا ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ پوری عرب قوم کے دکھ اور خوشیاں سانجھی ہیں۔ فلسطینی قوم کو اپنے غصب شدہ حقوق کے حصول کے لیے مسلح مزاحمت کا حق حاصل ہے۔
ادھر دوسری جانب اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے سیاسی شعبے کے سینیر رکن عزت الرشق نے ایک بیان میں بشپ کابوچی کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ ایک بیان میں عزت الرشق نے کہا کہ القدس سے تعلق رکھنے والے جلا وطن عیسائی رہنما نے پوری زندگی صہیونی ریاست کے جرائم کے سامنے کھل کر بات کی۔ فلسطینی قوم کی نصرت کرتے Â اور مجاھدین کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ آج فلسطینی قوم کابوچی کے انتقال سے ایک عظیم سپاہی سے محروم ہوگئی ہے۔
تحریک فتح کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں بھی ہیلاریون کابوچی کے انتقال پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ بشپ کابوچی کے جرات مندانہ موقف پر صہیونی ریاست کو ہمیشہ ناکامی اور سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے زندگی بھر فلسطینی قوم اور فلسطینی کاز کی خدمت کی۔ صہیونی ریاست نے انہیں انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے ملک بدر کیا مگر تمام ترانتقامی حربوں کے باوجود ہیلاریون کابوچی کے جذبہ حریت میں ذرا برابر کمی نہیں آئی۔
خیال رہے کہ ھیلاریون کابوچی کا شمار فلسطین ہی نہیں بلکہ دنیائے عیسائیت کے ممتاز مذہبی رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ وہ 1922ء کو شام کے شہر حلب میں پیدا ہوئے۔ 1965ء میں وہ بیت المقدس میں قائم رومن کھیتولک چرچ کےسربراہ بنے۔ سنہ 1974ء کو انہیں قابض اسرائیلی فوج نے گرفتار کیا اور مسلسل 12 سال اسرائیلی جیلوں میں پابند سلاسل رہے مگر سنہ 1978ء میں انہیں رہا کرنے کے بعد اٹلی کے شہر روم جلا وطن کردیا گیا۔
سنہ 2009ء میں غزہ کی پٹی کا محاصرہ توڑنے کے لیے آنے والے لبنانی Â سمندری قافلے’فریڈم فلوٹیلا‘میں بھی انہوں نے شرکت کی اور 2010ء میں مرمرہ قافلے میں بھی شرکت کی۔ اسرائیلی فوج نے یورپی امدادی قافلے میں شامل ترک بحری جہاز ’مرمرہ‘ پر شب خون مار کر 10 ترک رضاکاروں کو شہید کردیا تھا جس کے بعد ترکی اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات معطل ہوگئے تھے جو کہ گذشتہ سال کے وسط میں بحال ہوئے۔