فلسطین میں یہودی آباد کاری کے خلاف 22 دسمبر 2016ء کو سلامتی کونسل میں ایک قرارداد منظور کی گئی۔ اقوام متحدہ کے ریکارڈ میں یہ قرارداد 2334 کے عدد کے ساتھ یاد رکھی جائے گی۔ یہ قرارداد ایک ایسے وقت میں منظور ہوئی ہے جب امریکا میں حکومت تبدیل ہو رہی ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں بھی سلامتی کونسل کی قرارداد کو غیرمعمولی اہمیت دی گئی ہے۔
اس ضمن میں اسرائیل کے ایک دفاعی تجزیہ نگار ’بارک ربید‘ نے اخبار’ہارٹز‘ میں سلامتی کونسل کی قرارداد کے حوالے سے ایک تفصیلی مضمون لکھا ہے جس میں فاضل کالم نگار نے قرارداد کے مستقبل کے حوالے سے کئی اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ وہ استفسار کرتے ہیں کہ کیا اس قرارداد کو منسوخ کردیا جائے گا؟ اگر منسوخ نہیں کیا جاتا تو یہ اسرائیل پر پابندیوں کا نیا موقع آگیا ہے؟ ساتھ ہی انہوں نے اس حوالے سے ان سوالوں کے جواب بھی دیے ہیں۔
بارک ربید کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کی قرارداد نے فلسطین میں یہودی بستیوں کے مستقبل پر بھی کئی سوالات مرتب کیے ہیں۔ کیا یہ قرارداد اسرائیل کے خلاف عالمی اداروں میں قانون سازی کا مقدمہ بن سکتی ہے؟
بغیرنفاذ کے قانون
صہیونی تجزیہ نگار نے استفسار کیا ہے کہ کیا سلامتی کونسل کی قرارداد فلسطین میں یہودی بستیوں کے خلاف ہے؟ اس سوال کے جواب میں ربید لکھتے ہیں کہ اگرچہ اس قرارداد میں 45 سال سے جاری یہودی بستیوں ہی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ ایسی ہی ایک قرارداد کئی سال قبل بھی منظور کی گئی تھی جسے قرارداد 465 کا نام دیا گیا تھا۔ یہ قرارداد Â مارچ 1980ء میں منظور کی گئی مگر اس قرارداد کی منظوری کے باوجود صہیونی ریاست یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے کے مطالبے کو مسلسل نظرانداز کرتی رہی ہے۔
بارک ربید پھر استفسار کرتے ہیں کہ کیا سلامتی کونسل کی قرارداد یہودی بستیوں کی قانونی حیثیت کو تبدیل کردے گی؟
اس کے جواب میں صہیونی صحافی کا کہنا ہے کہ چوتھے جنیوا معاہدے میں کسی مقبوضہ Â اور متنازع علاقے میں تعمیرات غیرقانونی تصور کی جائیں گی۔ کسی بھی علاقے میں وہاں کی اکثریت آبادی کے اعتبار سے فیصلہ کیا جائے گا۔ کسی ملک کے لیے مناسب نہیں ہوگا کہ وہ کسی دوسرے ملک کے مقبوضہ علاقے میں مرضی کی تعمیرات کرے یا دوسرے ملک سے لوگوں کو وہاں پر لا کر بسائے۔ اس اعتبار سے قرارداد 2334 اور اس سے قبل منظور کی جانے والی تمام قراردادوں نے مقبوضہ مشرقی بیت المقدس اور مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی تعمیرات کو غیرقانونی ہی قرار دیا جائے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ جنیوا معاہدے میں یہ تو طے کرلیا گیا کہ دوسرے ملک کے کسی حصے پر آباد کاری غیرقانونی ہوگی مگر اس قانون کا فلسطین میں نفاذ نہیں کیا سکا کیونکہ اسرائیل دھڑلے کے ساتھ یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھے ہوئے ہے۔ قانون موجود ہے مگر اسرائیل کے خلاف کوئی عالمی ادارہ حرکت میں نہیں آیا اور نہ ہی صہیونی ریاست پر اقتصادی پابندیاں عائد کی جاسکی ہیں۔ سوائے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی یہودی آباد کاری کے خلاف تیار کی گئی تحقیقاتی رپورٹس اور کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاسکا۔
قرارداد کے متوقع اثرات ونتائج
اسرائیلی صحافی اور تجزیہ نگار بارک ربید کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل میں یہ قرارداد اقوام متحدہ کی شق 6 کے تحت منظور کی گئی ہے۔ یوں یہ قرارداد محض سفارشی نوعیت کی ہے۔ اقوام متحدہ اسرائیل کو یہودی آباد کاری روکنے کی پابند بنانے کی ذمہ دار نہیں۔ لہٰذا اس قرارداد کی حیثیت محض سفارشی ہے۔
ربید کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کی قرارداد اسرائیل کے لیے عالمی برادری کا ایک سیاسی پیغام ہے۔ اس قرارداد سے یہ تو واضح ہوگیا کہ عالمی برادری فلسطین میں یہودی آباد کاری کو غیرقانونی سمجھتی ہے مگر یہ بھی اشارہ دے دیا کہ عالمی برادری صہیونی ریاست کو یہودی آباد کاری رکوانے کے لیے دباؤ ڈالنے کی روادار نہیں ہے۔ طاقت کے ذریعے اگر اسرائیل سے قرارداد پرعمل درآمد کرانا مقصود ہوتا تو یہ قرارداد اقوام متحدہ کی شق 7 کے تحت منطور کی جاتی۔ عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں صہیونی ریاست پر پابندیاں عائد کی جاتیں مگر اس قرارداد کی منظوری میں ایسا نہیں کیا گیا۔
تاہم اس کے باوجود اسرائیل پر فلسطین میں یہودی بستیوں کے حوالے سے ایک دباؤ ضرور آیا ہے۔
منفرد اقدام
اسرائیلی تجزیہ نگار کے مطابق سلامتی کونسل میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف منظور ہونے والی حالیہ قرارداد اپنی نوعیت کا منفرد اقدام ہے۔ یہ قرارداد غیر قانونی یہودی بستیوں کے براہ راست اور بالواسطہ بائیکاٹ کی طرف اہم پیش رفت ہوسکتی ہے۔ اس طرح اسرائیل کو عالمی سطح پر بائیکاٹ کی جاری تحریک میں مزید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ چونکہ اس سے قبل یورپی یونین اور کئی دوسرے ممالک پہلے ہی یہودی بستیوں میں تیار ہونے والی اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کا خیر مقدم کرچکی ہے۔ اگلے مرحلے میں یورپی یونین صہیونی ریاست پر مزید اقتصادی دباؤ ڈال سکتی ہے۔
کیا یہ پہلا موقع ہے جب امریکا نے سلامتی کونسل میں فلسطین میں یہودی بستیوں کے خلاف پیش کی گئی قرارداد کو ویٹو کرنے سے گریز کیا ہے؟
اس سوال کے جواب میں صہیونی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ سنہ 1967ء کی جنگ کے بعد فلسطین کی حمایت اوراسرائیل کی مخالفت میں پیش کی گئی 47 قراردادوں میں یہ پہلی قرارداد ہے جسے امریکی صدرنے منظور ہونے دیا ہے۔ ماضی میں تمام امریکی صدور اپنے ادوار میں صہیونی ریاست کے بہی خواہ اور ہمنوا رہے ہیں۔ باراک اوباما پہلے صدر ہیں جنہوں نے اسرائیل کے خلاف Â پیش کی گئی قرارداد منظور ہونے دی ہے۔
کیا ٹرمپ قرارداد منسوخ کراسکتے ہیں؟
ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس قرارداد کو منسوخ کراسکتے ہیں؟
اس سوال کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو سے نئی امریکی انتظامیہ اس قرارداد کو منسوخ کراسکتی ہیں اور دوسرے پہلو سے نہیں کراسکتی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو اس قرارداد کو منظور کرانے کے لیے اس کے الٹ ایک ایسی قرارداد منظور کرانا ہوگی جس میں یہ تسلیم کیا جائے گا کہ فلسطین میں یہودی بستیاں قانونی ہیں اور یہ فلسطین میں قیام امن کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہیں سلامتی کونسل کے 8 رکن ملکوں کی حمایت درکار ہوگی۔ دیگر ارکان کے ساتھ ویٹو پاور رکھنے والے روس، چین، برطانیہ اور فرانس کی حمایت چاہیے ہوگی۔ بہ صورت دیگر نئی امریکی انتظامیہ اس قرارداد کو منسوخ نہیں کراسکتی۔