الاقصیٰ ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں حماس رہنما ڈاکٹر خلیل الحیۃ نے کہا کہ مصر کی حکومت کی طرف سے حالیہ ہفتوں کے دوران جو اقدامات اٹھائے ہیں ان سے ظاہر ہوتا Â ہے کہ قاہرہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اپنے قائدانہ کردار کی طرف دوبارہ پلٹ رہا ہے۔ غزہ کی پٹی پرعائد پابندیوں میں نرمی اس بات کا ثبوت ہے کہ مصر نے فلسطینیوں کے حوالے سے اپنی پالیسی میں مثبت تبدیلیاں کی ہیں۔ حماس غزہ کی ناکہ بندی میں نرمی کرنے کے اقدامات کا خیر مقدم کرتی ہے اور برادر ملک مصر کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی کی بین الاقوامی گذرگاہ ’رفح‘ کے کھلنے کا فایدہ نہ صرف فلسطینیوں کو ہوگا بلکہ مصر کو بھی اس کا خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔ اس لیے ہم یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ رفح گذرگاہ کو مستقل بنیادوں پر کھولا جائے تاکہ دو طرفہ تجارتی سرگرمیوں کا آغاز کیا جاسکے۔
خیال رہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران مصری حکومت نے رفح گذرگاہ متعدد مرتبہ دو طرفہ آمد ورفت کے لیے کھولی ہے جس کے نتیجے میں دونوں طرف پھنسے فلسطینیوں کو اپنی اپنی منازل کی طرف جانے کا موقع ملا ہے۔
خلیل الحیۃ نے کہا کہ ان کی جماعت نے مصر کے تجارتی، صحافتی اور اقتصادی وفود غزہ بھجوانے کی متعدد بار دعوت دی ہے۔ ہم آج ایک بار پھر مصر سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے تاجروں کو غزہ بھیجےÂ تاکہ وہ یہاں پر سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس کے علاوہ غزہ کی صورت حال سے آگاہی کے لیے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو غزہ بھیجا جائے۔
تحریک انتفاضہ جاری رہے گی
ایک سوال کے جواب میں حماس رہنما ڈاکٹر خلیل الحیہ نے کہا کہ تحریک انتفاضہ القدس کو لیڈ کرنے کے لیےÂ قومی تزویراتی قیادت کی اشد ضرورت ہے۔ حماس تحریک انتفاضہ کو آگے بڑھانے کے لیے ہرممکن اقدام کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے مزاحمتی اور سیاسی کارکنوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کی شدید مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ رام اللہ اتھارٹی سیاسی کارکنوں کو ہراساں کرنے اور انہیں پابند سلاسل کرنے کی پالیسی بند کرے۔
ڈاکٹر خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی دارے اسرائیلی فوج کے آلہ کار بن چکے ہیں۔ انہوں نے کہا ہم اپنے حقوق اور قابض دشمن کے خلاف مزاحمت کے لیے کسے اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تمام فلسطینی قوتیں مل کر تحریک انتفاضہ کو مضبوط کریں۔
ڈاکٹر خلیل الحیہ نے صہیونی ریاست کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس اور سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی شہروں میں موجود مساجد میں آذان پر پابندی کے ظالمانہ قانون کی شدید مذمت کی اور کہا کہ آذان پر پابندی صہیونی ریاست کی بد ترین نسل پرستی، غیرانسانی اور غیر اخلاقی پالیسیوں کی زندہ مثال ہے۔