صہیونی زندانوں میں ڈالے گئے فلسطینیوں کی داستان غم کا ایک دوسرا رخ ان کے والدین اور پیاروں کا دکھ ہے۔ کتنے ہی قیدی ایسے ہیں جن کے والدین، مائیں یا باپ اسیر بیٹے کو ایک بار دیکھنے کی تمنا لیے اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔
ایسی ایک فلسطینی ماں وہیل چیئر پر بیٹھی غزہ کی پٹی میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کے ہیڈ کواٹر کے باہر اپنے عمر قید کے سزا یافتہ بیمار بیٹے فارس بارود کے انتظار میں ہے۔ بیٹے کی راہ تکتے مامتا کو ڈر ہے کہ وہ خود بھی عمر رسیدگی اور بیماری کے باعث اسی طرح دنیا سے کوچ کرجائے گی اور بیٹے کا آخری بار دیدار بھی نصیب نہیں ہوگا۔
صہیونی زندانوں سے جنازے اٹھانے جانے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس کی تازہ مثال یاسر حمدونہ کی شہادت ہے۔ حمدونہ عمر قید کے سزا کے تحت پابند سلال تھے اور 15 سال قید کآٹ چکے تھے۔ پچھلے ہفتے اچانک وہ عارضہ قلب میں مبتلا ہوئے مگرانہیں صہیونی جیلروں کی طرف سے کسی قسم کی طبی امداد مہیا نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں وہ جاں بر نہ ہوسکے۔
شہید یاسر حمدونہ کی ماں کے لیے بھی بیٹے کی اچانک شہادت کی خبر بجلی کے جھٹکے سے کم نہ تھی۔ چنانچہ بیٹے کی شہادت کی خبر سن کرماں تڑپ گئی اوربیٹے کی جدائی کے غم نے اسے بھی اسپتال پہنچا دیا۔
208 جنازے اٹھائے جا چکے
اسرائیلی جیلوں میں انتظامیہ کی کھلی غفلت کا شکار مریض فلسطینیوں کی تعداد 1500 سے زیادہ ہے مگر ان میں سے بعض کی حالت نہایت تشویشناک ہے۔ انہی میں اسیر فارس بارود بھی شامل ہیں۔
حال ہی میں فارس بارود کی والدہ نے غزہ کی پٹی میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کو ایک کفن ارسال کیا جس پر اسیر کی مریض ماں نے عالمی ادارے کی توجہ اپنے اسیر اور بیمار بیٹے کی طرف مبذول کرائی۔
فارس بارود کی ماں نے سفید کفن پر ہائی کمشنر کو لکھا کہ اب تک صہیونی زندانوں سے 208 فلسطینی قیدیوں کے جنازے تو اٹھائے جا چکے ہیں۔ کیا عالمی برادری اور بین الاقوامی ادارے صرف تماشا دیکھنے کے لیے ہیں۔ کیا ان کی ذمہ داری نہیں کہ وہ فلسطینی اسیران کے حقوق کے لیے صہیونی ریاست پر دباؤ ڈال سکیں۔
اسیر کی ماں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں جس بے رحمی کے ساتھ فلسطینی اسیران کو شہید کیا جا رہا ہے وہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی سب سے بڑی مثال ہے۔ صہیونی عقوبت خانوں میں ڈالے گئے فلسطینیوں کے حقوق کی پامالیاں ایک الگ داستان ہے۔ انتہائی خطرناک امراض میں مبتلا قیدیوں کو بنیادی طبی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔ چنانچہ اسیران سسک سسک کر زندگی کی بازی ہار رہے ہیں۔ صہیونی جیلروں، فوج اور اسرائیلی انتظامیہ کی مجرمانہ پالیسی اس لیے بھی جاری ہے کیونکہ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے فلسطینی قیدیوں کے معاملے میں اپنا فرض منصبی ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔
قیدیوں سے بدسلوکی جنگ کا حصہ
فلسطینی وزارت صحت کے ترجمان اشرف القدرہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی قید خانے میں ایک مریض فلسطینی یاسر حمدونی کی عارضہ قلب میں شہادت اس بات کی سب سے بڑی مثال ہے کہ اسرائیل فلسطینی مریض اسیران کے حقوق کی کھلم کھلا پامالی کررہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے سے گریزپرمبنی صہیونی پالیسی دراصل فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی ظالمانہ پالیسی اور جنگ ہی کا ایک تسلسل ہے۔
اشرف القدرہ نے استفسار کیا کہ اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی مریضوں کے جس تواتر کے ساتھ جنازے اٹھائے جا رہے ہیں وہ عالمی برادری کے کردار پربھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ فلسطینیوں کی شہادتیں عالمی برادری کے کندھوں پر بوجھ ہیں اور دنیا کو یہ بتانا ہوگا کہ وہ بے یارو مددگار فلسطینی اسیران کے لیے کیا کرتی رہی ہے۔
اشرف القدرہ نے کہا کہ آج فلسطینی قوم یاسرحمدونی کو لحد میں اتار رہے ہیں۔ اس سے قبل سیکڑوں فلسطینی صہیونی زندانوں میں اسی طرح لاپرواہی کے نتیجے میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ اس وقت بھی اسرائیلی زندانوں میں 70 فلسطینی کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں مگر انہیں کوئی طبی سہولت میسر نہیں ہے جب کہ 70 اسیر ہی دیگر جان لیوا امراض کا شکار ہیں جو سسک سسک کر زندگی کے دن پورے کررے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی زندانوں میں بیماری کے دوران لاپرواہی کا سامنا کرنے والے 10 فلسطینی رہائی کے بعد شہید ہوئے۔جب کہ 1500 فلسطینی اسیر اس وقت کئی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔