صہیونی غاصب افواج بھی بہ خوبی جانتے ہیں کہ الخلیل شہر میں رہنے والے فلسطینی جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے ایسے سرشار ہیں کہ وہ آزادی کے حصول اور مظالم کے خلاف کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی افواج الخلیل ہے باشندوں کے جذبہ جہاد اور شوق شہادت کو کچلنے کے لیے طاقت کے تمام ظالمانہ حربے استعمال کررہی ہیں۔ مگر طاقت کا اندھا دھند استعمال بھی صہیونوں کے عزائم پورے کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔
نسل پراستانہ پالیسی
الخلیل اور غرب اردن کے باشندے صہیونی ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور آمادہ مزاحمت کیوں ہوئے ہیں؟ اس حوالے سے مرکزاطلاعات فلسطین نے چند اسباب پر روشنی ڈالی ہے جو دراصل تحریک انتفاضہ القدس کی بنیاد بنے ہیں۔
ایک مقامی فلسطینی رہ نما 67 سالہ بدران جابر جو عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین کے مرکزی رہ نما ہیں کا کہنا ہے کہ فلسطین میں اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ سب صہیونی ریاست کے مظالم ہی کا نتیجہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی طرف سے صہیونی ریاست کے خلاف انتفاضہ اس لیے شروع کی گئی کیونکہ قابض ریاست نے نہتے فلسطینیوں پر نسل پرستانہ قوانین مسلط کرنا شروع کردیے ہیں۔ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق فلسطینیوں کے خلاف اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں بچا تھا کہ وہ صہیونی ریاست کے خلاف آمادہ جہاد ہوں اور مسلح تحریک شروع کریں۔
بدران جابر نے کہا کہ فلسطینی قوم کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ ہمیں یہ حق عالمی معاہدوں، بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں، جنیوا کنونشن اور عالمی عدالت انصاف کے منشور میں دیا جا چکا ہے۔ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے بھی فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے عالمی اداروں پران طاقتوں کی اجارہ داری قائم ہے جوصہیونی ریاست کے خلاف فلسطینیوں کی تحریک کو کسی اور نظر سے دیکھتے ہیں۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں فلسطینی سیاست دان کا کہنا تھا کہ الخلیل شہر اپنی تاریخ کے اعتبار سے قربانیاں پیش کرنے میں بے مثل رہا ہے۔ صدیوں سے اس شہر میں بسنے والے فلسطینی جذبہ قربانی اور جدو جہد آزادی سے سرشار رہے ہیں۔ الخلیل کے باشندوں نے اپنی جان ومال، گھروں کی مسماری کے خوف، صہیونی کریک ڈاؤن، گرفتاریوں اور تشدد کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ الخلیل کے باشندے یہ بھی جانتے ہیں کہ صہیونی فوج انہیں بے گناہ شہید کرتی، ان پر مظالم کے پہاڑ توڑتی ہے مگر وہ اس کی پرواہ کیے بغیر اپنی جدو جہدو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر رہے کہ الخلیل شہر کا شمار مقبوضہ مغربی کنارے کے سب سے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ اس شہر کا کل رقبہ 970 مربع کلو میٹر ہے اور آبادی 9 لاکھ 50 ہزار سے متجاوز ہے۔ اس شہر کے باشندے فلسطین کے دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ صہیونی ریاست کے مظالم کا سامنا کرتے ہیں۔
یہودی شرپسندوں کی غنڈی گردی
بدران جابر نے بتایا کہ غرب اردن کے شہریوں کی طرف سے مسلح جدو جہد شروع کرنے کا دوسرا بڑا سبب یہودی آباد کاروں کی غنڈہ گردی ہے۔ صہیونی فوج اور یہودی آباد کار بدترین نسل پرستانہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ نہتے فلسطینیوں پر وحشیانہ حملوں میں ملوث ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جس میں یہودی آباد کاروں کی طرف سے فلسطینیوں کی جان ومال اور املاک پر مہلک حملے نہ کیے جاتے ہوں گے۔
یہودی آباد کاروں کا چلن دراصل اسرائیلی وزیردفاع آوی گیڈور لائبرمین کی ظالمانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ فلسطینیوں کو اپنی جانوں اوراموال کے تحفظ کے لیے کوئی ڈھال میسرنہیں ہے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ جس معاشرے میں ایک غاصب طاقت فوجی قوت اور اپنے عام شہریوں کی مدد سے دوسری طاقت کو دبانے کی پالیسی پرعمل پیرا ہوگی تو بھلا کیا مظلوم قوم ان مظالم کے خلاف آواز بلند نہیں کریں گے۔
الخلیل کے باشندے بہ طورخاص صہیونی ریاست کے مظالم اور پابندیوں کا سامنا کرے ہیں۔ خاص طور پر ہی وہ یہودی انتہا پسندوں کی طرف سے بھی انتقامی کارروائیوں اور غنڈہ گردی کا شکار رہتے ہیں۔ الخلیل شہر کی بعض کالونیوں پرصہیونی فوج کا مسلسل پہرا اور محاصرہ مسلط ہے۔ کریات اربع کالونی کے قریب تل ارمیدہ کالونی میں اسرائیلی فوج کی دہشت گردی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
انتفاضہ کا آئیکون
الخلیل سے تعلق رکھنے والے سابق فلسطینی اسیر محمد علی القواسمی کہتے ہیں کہ الخلیل میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ قطعا غیرقانونی اور غیرآئینی اور صہیونی ریاست کے بدترین ظلم کی عکاسی کرتا ہے مگر فلسطینیوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
القواسمی کا کہنا ہے کہ فلسطینی شہری جانتے ہیں کہ صہیونی ریاست کی طرف سے مظالم کوئی نئی اور انوکھی بات ہرگزنہیں ہے۔ الخلیل میں جو مظالم ڈھائے گئے ہیں وہ خلاف توقع نہیں ہیں۔
فلسطینیوں نے بھی صہیونی دشمن کے خلاف الخلیل شہر کو مزاحمت کا بیس کیمپ اور انتفاضہ کا ’آئیکون‘ ثابت کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے سال اکتوبر کے بعد سے جاری تحریک انتفاضہ میں 248 فلسطینیوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ ان میں 77 فلسطینی یعنی کل شہداء کا 31 فی صد کا تعلق الخلیل شہر سے ہے۔ تحریک انتفاضہ کے دوران سب سے زیادہ گرفتاریاں بھی اسی شہر سے ہوئیں۔ یوں اس شہرنے صہیونی مظالم کے خلاف انتفاضہ کا آئیکون ثابت ہوا ہے۔
مسجد ابراہیمی کی بے حرمتی
الخلیل کے ایک دیرینہ شہری اور سماجی کارکن 79 سالہ الحاج عبدالمعطی ابو اسنینہ نے بتایا کہ وہ برسوں سے الخلیل شہر میں موجود فلسطینیوں کی تاریخی جامع مسجد حرم ابراہیمی میں با جماعت نماز ادا کرتے ہیں۔ فلسطینیوں کے صہیونی ریاست کے خلاف پائے جانے والے غم وغصے بالخصوص الخلیل کے شہریوں کے جذبہ مزاحمت میں مسجد ابراہیمی کی صہیونیوں کے ہاتھوں ہونے والی مسلسل بے حرمتی بھی شامل ہے۔
الحاج عبدالمعطی کا کہنا ہے کہ میں یہودیوں کی مسجد ابراہیمی پریلغار کا عینی شاہد ہوں۔ یہودی اشرار آئے روز مسجد ابراہیمی میں داخل ہو کرمسلمانوں کے اس مقدس مقام کی کھلم کھلا بے حرمتی کرتے ہیں۔ فلسطینیوں کو وہاں پر نماز کی ادائی اور عبادت سے روک دیاجاتا ہے۔ یہودی فوجی اور پولیس اہلکار فلسطینی نمازیوں کو زدو کوب کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ نماز کے ساتھ ساتھ اذان کی ادائی پربھی اکثر نام نہاد امن وامان کے دعوؤں کی آڑمیں مسجد ابراہیمی میں آذان دینے پرپابندی عاید کردی جاتی ہے۔
نماز ادا کرنے والے فلسطینیوں کی پکڑ دھکڑ کی جاتی ہے۔ یہودی آباد کاروں کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے بھی فلسطینیوں کو زدو کوب کیا جاتا ہے۔