پرانا الخلیل شہر کسی دور میں فلسطین کا تاریخی، ثقافتی اور تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا مگرآج اس کی دگرگوں اور ابتر معاشی حالت کو دیکھ کر ترس آتا ہے۔ ٹیم نے تاریخی شہر کے گلی کوچوں اور ان سنسان بازاروں کا ایک طائرانہ جائزہ لیا جو صہیونی فوج کی غنڈہ گردی اور یہودی آباد کاروں کی آئے روز ہونے والی سازشوں کے نتیجے میں ویران ہوچکے ہیں۔
پرانے بیت المقدس کے باسیوں اور دکانداروں کی زبان پرصرف ایک ہی شکوہ ہے کہ ان کے کاروبار میں سب سے بڑی رکاوٹ چپے چپے پرپھیلی مسلح صہیونی فوج ہے۔ اسرائیلی فوج نے جہاں سڑکوں پر گشت جاری رکھا ہوا ہے وہیں مکانوں کی چھتوں اور جگہ جگہ ناکے لگا کر فلسطینیوں کی نقل وحرکت پرپابندی عائد کررکھی ہیں۔ اس لیے لوگ خوف کے مارے گھروں سے نکلنے سے قاصر ہیں۔ حتیٰ کہ بچے اسکول جاسکتے ہیں اور نہ ہی مریضوں کو آسانی سے اسپتالوں میں پہنچایا جاسکتا ہے۔ اسرائیلی فوج کی اس مجرمانہ بدمعاشی کا ایک بڑا شکار پرانے بیت المقدس کے تاجر، دکاندار اور عام شہری سبھی برابر ہیں۔
تاریخی مقام کی پرانی یادیں
ٹیم پرانے بیت المقدس کے شمال مشرقی گوشے سے باب الزاویہ سے داخل ہوئی جو مسجد علی البکاء اور حارہ الشیخ سے ہوتے ہوئے مسجد ابراہیمی کی تعمیرومت کی ذمہ دار کمیٹی اور فلسطینی محکمہ اوقاف کے مقامی دفتر تک پہنچی۔ اگرچہ مسجد ابراہیمی اور اس کے آس پاس کے فلسطینی قصبوں کے درمیان کوئی زیادہ مسافت نہیں بلکہ چند منٹوں ہی کی دوری ہے مگر موجودہ نقشے کو دیکھ کرلگتا ہے کہ مسجد ابراہیمی الخلیل شہر میں نہیں بلکہ کوسوں دور ہے۔ اسرائیلی فوج نے جگہ جگہ ناکے لگا کر گلیاں اور سڑکیں بند کر رکھی ہیں۔ یوں فلسطینیوں کو دور دراز سے گھوم پھر کر مسجد ابراہیمی تک پہینچنا پڑتا ہے۔ یوں مسجد ابراہیمی کے قریب واقع بازار بھی اسی وجہ سے بند ہوچکے ہیں کیونکہ وہاں تک گاہکوں کی رسائی ناممکن بنا دی گئی ہے۔
پرانے بیت المقدس کے رہائشی 75 سالہ ابو ریاض نے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پچھلے 40 سال سے یہاں ایک چھوٹا سا ہوٹل چلا رہے ہیں۔ عمر رسیدگی کے باوجود ہم نے یہ جگہ دل سے لگا رکھی ہے، ورگرنہ یہاں پر زندگی جینے کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ وہ صرف ماضی کی یادوں کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ کوئی بھولا بھٹکا گاہک آجائے تو اس کی خدمت خاطر بھی کرتےہیں۔ ورنہ اللہ اللہ خیر سلا۔
بابا ابو ریاض کے ہوٹل پرتیار کیے جانے والے مقامی کھانے‘الفلافل‘ کی بھینی بھینی خوشبو دور دور تک محسوس کی جاسکتی ہے مگر وہ اس بات پرپریشان رہتے ہیں کہ ان کا تیار کردہ کھانا اکثر گاہک نہ ہونے کے باعث ضائع ہوجاتا ہے۔
اسی سنسان بازار میں ایک حصہ ’’دودھ مارکیٹ‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ قدیم شاہراہ سے متصل ہے۔ پرانی شاہراہ اپنے آس پاس اسلامی تاریخ کے چند نادر ونایاب نمونوں کو محفوظ کیے ہوئے ہے۔یہاں جانے والا ان تاریخی مقامات کی دلفریبی میں کھو کر رہ جاتا ہے۔
باقی اطراف میں تمام دکانیں بند پڑی ہیں۔ دکانوں کے باہر مکڑیوں کے جالوں سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ بازار کس قدر ویرانی اور سنسانی کا سامنا کررہا ہے۔البتہ اسرائیلی فوج کی طرف سے جاری کردہ نوٹس جگہ جگہ دیکھے جاسکتے ہیں۔ درمیان میں ایک چھوٹی سے دکان پر سبزی فروش نے تھوم، پیاس،ٹماٹر، آلو اور مرچوں سمیت چند مقامی سبزیاں سجا رکھی ہیں۔
سنسان بازار اور یاد ماضی
ٹیم نے پرانے الخلیل شہر کے ان ویران وسنسان بازاروں کا معائنہ کرتے ہوئے ’شاور محلات‘‘ کو بھی وزٹ کیا۔ یہ دکانیں مقامی سطح پر سمسم (تل) کا تیل نکالنے کے بعد فروخت کرتی ہیں۔ یہاں پر ایک تیل نکالنے والی چکی جسے اونٹوں کی مدد سے چلایا جاتا ہے عرصہ دراز سے موجود ہے۔ مقامی سطح پر یہ بازار المعصرہ کہلاتا ہے۔ المعصرہ بازار کا قیام سنہ 1919ء میں رکھا گیا جہاں مختلف اقسام کے تیل کشید کیے جاتے۔ آج بھی وہاں پر تیار ہونے والا خوردنی تیل آٹھ شیکل یعنی دو ڈالر فی اوقیہ فروخت کیا جاتا ہے۔
دکان کے مالک نے بتایا کہ سمسم کا تیل پرانے القدس کی ایک مٹتی ہوئی یاد گار ہے۔ یہ تیل جہاں کھانے میں استعمال ہوتا ہے وہیں سینے کے پھوڑوں، سوزش اور بالوں کے مسائل کے لیے ایک علاج بھی سمجھا جاتا ہے۔
مالک دکان کا کہنا ہے کہ انہوں نے سمسم کا تیل تیار کرنے کے لیے جدید آلات لانے کا فیصلہ کیا ہے مگر صہیونی حکام انہیں آلات بازار تک پہنچانے کی اجازت نہیں دیتے مگر تیل کی چکی ایک بند دروازے کے پیچھے اپنا کام کررہی ہے۔
گاہکوں سے خالی بازاروں پرصہیونی فوج کے ڈیرے
ٹیم پرانے الخلیل شہر کی دودھ مارکیٹ سے دو بار گذری۔ اس دوران تیل کشید کرنے والے کارخانہ دار سے بھی بات چیت ہوئی۔ اس دوران خالی سڑک پر اکا دکا راہ کوئی راہ گیر دکھائی دیتا مگر بازار میں جس طرف نظر دوڑاتے اسرائیلی فوجی ہی دکھائی دیتے تھے۔ دکانوں کے سامنے کھڑے گپیں لگاتے، مکانوں کی چھتوں پر، سڑکوں پر پیدل اور گاڑیوں پر گشت کرتے، ناکوں پر کھڑے اور چوکیوں پر بندوقیں تانیں اسرائیلی فوجی اس بات کا ثبوت تھا کہ پورے علاقے پران کا ڈیرہ ہے۔ ایسے لگتا کہ ہم ایک فوجی چھاؤنی میں ہیں جہاں چار سو فوجیوں کا شور غل اوربندوقوں اور اسلحہ کی چھنکار سنائی دیتے ہیں۔
دکانداروں نے جب اس صورت حال پربات کی توانہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوجیوں کی ہمہ وقت بازاروں کے اندر اور باہر موجودگی ہی دراصل ہمارے کاروبار کی تباہی کا سبب ہے۔ لوگ خوف کے مارے بازاروں کا رخ نہیں کرتے۔ حالانکہ عید ہے اور عید کے ایام میں دکانوں سے رش ختم نہیں ہوتا۔ یہاں صبح سے شام تک بعض اوقات کوئی ایک گاہک بھی نظرنہیں آتا۔
رہی سہی کسر یہودی آباد کار نکال دیتے ہیں جو اکثر اسرائیلی فوج کی فول پروف سیکیورٹی میں دکانوں پرحملے کرتے، گاہکوں اور دکانداروں کو ہراساں کرتے ہیں۔ کہیں دور کسی جگہ کوئی گڑ بڑ ہوجائے تو دکانداروں پرایک آفت ٹوٹ پڑتی ہے۔ ہنگامی حالت میں دکانیں بند کرادی جاتی ہیں۔
پرانے الخلیل کے بارونق سمجھے جانے والے علاقے کا وزٹ کرتے ہوئے ٹیم ابو سمیر الشربانی میوزیم تک پہنچی۔ کسی دور میں یہ ایک عجائب گھر ہوا کرتا تھا اور سیاحوں کا ھجوم دن رات اس کی رونق کو مزید چار چاند لگاتا۔ آج دیکھا تو لگا یہ تاریخی مقام بھی صہیونیوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوچکا ہے۔ پی آئی سی کی ٹیم کو اندر جانے سے روک دیا گیا۔
اہل محلہ نے بتایا کہ اس مکان اور عجائب گھر کے مالکان کئی سال قبل علاقہ چھوڑ گئے تھے۔ میوزیم کے ذمہ داران اور گھروں کے مالکان پر دباؤ تھا کہ وہ یہ جگہ خالی کریں۔ خالی نہ کرنے پرباربار حملے کیے گئے۔ خواتین اور بچوں کو رات دن زدو کوب کیا جاتا جس کے نتیجے میں تنگ آ کر وہ لوگ جگہ چھوڑ گئے اور آج یہ تاریخی مقام ’’ابراہام ابینو‘‘ نامی یہودی کالونی کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔
اسی پرانے الخلیل کے تاریخی مقامات میں مسجد ابن عثمان بھی ہے۔ یہ جامع مسجد ہے جو آس پاس کے قصبوں کی سب سے بڑی جامع مسجد قرار دی جاتی ہے، مگر اس کے اطراف میں بھی اسرائیلی فوج کا پہرہ ہے۔ صرف مسجد کے چند اڑوس پڑوس کے لوگوں کو وہاں نماز کے لیے آنے کی اجازت ہے۔
نامہ نگار نے اپنی یاداشت پر زور ڈالتے ہوئے یہاں کی تاریخی مسجد الاقطاب کے بارے میں لوگوں سے پوچھا تو مقامی شہریوں نے بتایا کہ مسجد الاقطاب بھی تاریخی مساجد میں شمار ہوتی تھی اور اس کے قریب واقع بازار پرانے شہر کے پرانے بازاروں میں شمار ہوتا رہا ہے مگر پچھلے 20 سال سے وہ بازار سنسان ہے اور اس کی جگہ یہودی کالونی میں شامل کردی گئی ہے۔ مسجد کی طرف جانے والے راستے بھی سیمٹ کے بھاری بلاک کھڑے کر کے بند کردیے گئے ہیں۔