فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق فلسطین کی اس بہادر بیٹی نے کہنی سے کندھوں تک گولیاں کھانے اور مسلسل اسیری کے باوجود مرح پوری قوت کے ساتھ صہیونیوں کی درندگی کا مقابلہ کر رہی ہے۔
مقبوضہ بیت المقدس سے تعلق رکھنے والے 17 سالہ مرح بکیر کو ایک سال قبل حراست میں لینے سے قبل اسرائیلی فوجیوں نے اسے کئی گولیاں ماریں۔ وہ شدید زخمی ہوئی مگر صہیونی دشمن اس کی جان لینے کی سازش میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اسکول میں بہترین نمبروں کے ساتھ طب کی تعلیم حاصل کرنے والی مرح پر الزام عاید کیا گیا کہ اس نے ایک یہودی آباد کار پر چاقو سے حملہ کرنے کی کوشش کی تھی جس پر اسے گولیاں ماری گئیں۔ وہ میڈیکل اسسٹنٹ بننا چاہتی تھی مگر اس واقع نے اس کی سوچ بدل کر رکھ دی۔ وہ جیل میں پابند سلاسل تھی جب اس کے میٹرک کے نتائج کا اعلان ہوا۔ وہ 80 فی صد نمبروں کے ساتھ کامیاب ہوئی۔ دوران حراست اس نے فیصلہ کیا کہ وہ میڈیکل کی تعلیم کے بجائے صہیونی ریاست کے مظالم کو بے نقاب کرنے کے لیے وکالت اورقانون کی تعلیم حاصل کرے گی۔
والدہ کے تاثرات
مرح بکیر کی والدہ سوسن بکیر کہتی ہیں کہ’’ 12 اکتوبر2015ء کی علی الصبح مرح معمول کے مطابق نماز فجر سے قبل بیدار ہوئی، نماز ادا کرنے کے بعد تلاوت کی، اسکول جانے کی تیاری کی، کپڑے تبدیل کیے اور اسکول کا یونیفارم پہنا اور اسکول روانہ ہو گئی۔ کوئی آدھا دن گذرا ہوگا کہ ان کے گھر کے فون نمبر پر کسی نے فون کر کے کہا کہ مرح بکیر کو اسرائیلی فوجیوں نے گولیاں مار دی ہیں۔ یہ خبر سن کرمیرے ہوش اڑ گئے۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ میری بیٹی کے ساتھ ایسا المناک واقعہ پیش آ سکتا ہے۔ مجھے اس کے باوجود یقین نہ تھا مگر میں دیوانگی کے عالم میں اس کے اسکول کی طرف دوڑ پڑی، ہمارے پڑوسیوں کو پتا چلا تو وہ بھی اسکول کی طرف بھاگے۔ میں نے اپنے شوہر سے رابطہ کیا جو گھر سے بہت دور تھے۔ انہیں بتایا کہ مرح کو گولیاں مار دی گئی ہیں۔ رو رو کر میرا برا حال تھا۔ مرح کے اسکول سے کچھ فاصلے پر پہنچی تو سڑک پر مجھے ایک لڑکی پڑی نظرآئی جس کے چاروں طرف مسلح اسرائیلی فوجی تھی۔ مرح کا چہرہ دوسری طرف تھا اس لیے اس کی شناخت مشکل تھی مگر فورا ہی میری نظر اس کے اسکول کے جوتوں پرپڑی تو میں نے اس کے جوتے پہچان لیے۔ اب مجھے یقین ہو چکا تھا کہ صہیونی دشمن کی طرف سے ماورائے عدالت نہتے فلسطینیوں کے قتل عام کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ ان کے گھر تک آ پہنچا ہے۔
میں نے مرح کے قریب جانے کی کوشش کی مگراس موقع پر تعینات صہیونی فوجیوں نے مجھے یہ کہہ کر روک دیا کہ’’ تم مرح بکیر کے پاس نہیں جا سکتی کیونکہ اب وہ تمہاری نہیں ہماری ہے۔ تم اسے کبھی نہیں دیکھو گی‘‘۔ صہیونیوں کے اس رعونت آمیز جواب کے بعد میری حالت مزید بگڑ گئی۔ اس دوران اسرائیلی طبی عملےاور اسرائیلی فوجیوں نے مرح کو ایک فوجی گاڑی میں ڈالا اور کسی نامعلوم مقام کی طرف لے گئے۔ کچھ دیر بعد ہمیں بتایا گیا کہ مرح کو ھداسا عین کارم نامی اسپتال لے جایا گیا ہے۔ اس کشمکش میں مرح کے والد بھی پہنچ آئے مگر ہمیں مرح کے قریب جانے کی اجازت نہ دی گئی۔ میں جاننا چاہتی تھی کہ میری لخت جگر کیسی اور کس حال میں ہے۔ اسے کتنی گولیاں لگی ہیں اور اس کا علاج کیسے کیا جا رہا ہے۔ مگر اسرائیلی فوجی اور پولیس اہلکاروں نے صاف کہہ دیا کہ مرح کے کسی بھی رشتہ دار کو اس سے ملنے کی اجازت اسی صورت میں مل سکتی ہے کہ وہ عدالت سے اس کی منظوری لے کرآئیں۔
اگلے روز اسرائیلی فوجیوں نے مجھے اور مرح کے والد کو فوجی مرکز طلب کیا۔ ہم سے تین گھنٹے پوچھ تاچھ کی جاتی رہی۔ تین گھنٹے کے بعد ہمیں کہا گیا کہ آپ مرح سے ملاقات تو نہیں کر سکتے البتہ ٹیلیفون پراس سے مختصر بات کرائی جاسکتی ہے۔ ہم اسپتال پہنچے تو کسی نے مرح کو بتایا دیا کہ کمرے کے باہر تمہارے والدین کھڑے ہیں۔ اس کی نظریں بھی مسلسل درازے پرٹک گئی تھیں مگر ہمیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی‘‘۔
تعلیمی شعبہ کیوں تبدیل کیا
مرح بکیر کی والدہ سوسن بکیر نے بتایا کہ میری بیٹی ڈاکٹر بننا چاہتی تھی مگر اسرائیلی فوجیوں کے حملے اور اسیری کے بعد اس نے یہ فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مرح کی والدہ نے کہا کہ مرح میری سب سے بڑی بیٹی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ اس نے خود ہی اسرائیلی زندان کے اندر رہتے ہوئے پیغام بھیجا ہے کہ اعلیٰ نمبر حاصل کرنے کے باوجود وہ طب کی تعلیم نہیں بلکہ قانون کی تعلیم حاصل کرے گی کیونکہ فلسطینی قوم کا قانونی دفاع کرنا چاہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی عدالت سے مجھے چاہے جو مرضی سزا ہو جائے مگر میں قانون کی تعلیم ضرور حاصل کروں گی۔ رواں 21 ستمبر کو اسرائیلی عدالت مرح کے خلاف جاری مقدمہ کی سماعت کے دوران اسرائیلی فوج کے گواہوں کے بیانات قلم بند کرے گی جس کے بعد 25 ستمبر کو اس کا بیان ریکارڈ کرایا جائے گا۔