فلسطینی کاز کے لیے ذرائع ابلاغ میں قلمی جہاد کرنے والے غاصب صہیونیوں کے خاص طور پر نشانہ انتقام رہتے ہیں۔ مظلوم قوم کے لیے قلمی جہاد اور سماجی و ابلاغی میدان کی سرگرم فلسطینی نوجوان خاتون رہنما لمیٰ خاطر گذشتہ کئی سال سے صہیونیوں کے حلق کا کانٹا بنی ہوئی ہیں۔ آئے روز ان کی گرفتاری یا حراستی مراکز میں طلبی کے نوٹس جاری کیے جاتے ہیں۔ گھر پر چھاپے کی کارروائیوں کی آڑ میں لوٹ مار کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ قیمتی سامان کی توڑپھوڑ اور موبائل اور لیپ ٹاپ وغیرہ ضبط کر لیے جاتے ہیں۔
حال ہی میں لمیٰ خاطر کے گھر پراسرائیلی فوج نے رات کی تاریکی میں دھاوا بولا اور گھر میں توڑپھوڑ، اہل خانہ کو تشدد کا نشانہ بنانے اور لیپ ٹاپ وموبائل ضبط کرنے کےساتھ گھر میں رکھی نقدی اور زیورات لوٹ لیے گئے۔ صہیونی فوجیوں نے لمیٰ کو حراست میں لینے کا فیصلہ کیا تھا مگراس کا تین ماہ کا شیرخوار فلسطینی مجاھدہ کی گرفتاری کی راہ میں حائل ہو گیا۔
فلسطینی قلم کار لمیٰ خاطر نے بتایا کہ ہم لوگ اسرائیلی فوج کی روز روز کی تلاشی کی مہمات کے اب عادی ہو چکے ہیں۔ قابض فورسز کسی بھی وقت ان کے گھر کا گھیراؤ کر کے انہیں زد و کوب کرتی ہے۔
تازہ واقعہ مقامی وقت کے مطابق رات ایک بجے اس وقت پیش آیا جب گھر میں موجود تمام افراد سو رہے تھے۔ لاتعداد فوجی الخلیل شہر میں واقع ان کے مکان کی بیرونی دیواریں پھلانگ کر اندر داخل ہوئے۔ ہم نے سمجھا کہ یہ معمول کی تلاشی کی مہم ہے۔ گھر میں داخل ہونے والوں میں خواتین اور مرد اہلکار دونوں شامل تھے۔ انہوں نے گھر کے تمام افراد کو وہاں سے باہر نکالا اور سامنے بھائی کے مکان میں جمع کر دیا۔ البتہ مجھے(لمیٰ خاطر) کو تنہا اپنے گھر میں رکنے کو کہا گیا۔ صہیونی خواتین فوجی اہلکاروں نے میرے کمرے کی تلاشی لی، توڑپھوڑ کے بعد میرا لیپ ٹاپ اور موبائل فون دونوں ضبط کر لیے اور ساتھ ہی مجھے گرفتاری وارنٹ دکھایا اور کہا کہ آپ کو ابھی ہمارے ساتھ چلنا ہو گا۔
میں نے ان سے گرفتاری کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ اپنے قلم سے اسرائیل کے خلاف اشتعال پھیلا رہی ہیں اور آپ کو اس کا خمیازہ بھگتنا ہو گا۔
لمیٰ نے بتایا کہ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کو اجاگر کرنے کی پاداش میں صہیونی حکام کئی بار انہیں اور ان کے شوہر ابو اسامہ کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بھی بنا چکے ہیں۔ مگر میں نے صہیونی فوج کے ظلم وزیادتی کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔
دھاوے کی شب اور گرفتاری کا چیلنج
لمیٰ خاطر نے کہا کہ یہودی مرد و خواتین فوجی اہلکار رات کے ایک بجے ان کے گھر میں داخل ہوئے۔ اسرائیلی فوج کے دھاوے کے شور سے ہم سب لوگ جاگ گئے۔ صہیونیوں نے گھر کی جامہ تلاشی لینے کے بعد لیپ ٹاپ اور دیگر سامان قبضے میں لے لیا اور مجھے گرفتار کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرا تین ماہ کا ایک معصوم بچہ ہے جسے میں کسی صورت میں یہاں نہیں چھوڑ سکتی۔ اگرمجھے گرفتار کرنا ہے تو مجھے بچے کو ساتھ لینے کی اجازت دی جائے۔ صہیونی فوجیوں نے کہا کہ میں ہم بچے کو ساتھ لانے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ اس کشمکش میں ایک گھنٹہ گذرگیا اور میں نے انہیں صاف بتا دیا کہ میں اپنے شیر خوار بچے کو کسی قیمت پر یہاں نہیں چھوڑ سکتی۔
اس پر قابض فوجیوں نے علاقائی فوجی عہدیدار کو بلا لیا جو ان سب کا انچارج بھی تھا۔ اس نے بھی آتے ہی کہا کہ آپ کو بچے کے بغیر ہمارے ساتھ چلنا ہوگا کیونکہ آپ کے گرفتاری کے وارنٹ جاری دیے جا چکے ہیں۔ اس پرمیں نے کہا کہ میں بچے کو کسی صورت میں نہیں چھوڑ سکتی۔
آخر کار صہیونی فوجیوں نے مجھے گرفتار نہ کرنے کا فیصلہ کیا مگر ساتھ ہی حکم دیا کہ میں اگلے روز ’’کفار عتصیون‘‘ کے مقام پر قائم اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس سینٹر میں رپورٹ پیش کروں۔
لمیٰ نے بتایا کہ صہیونی فوجی ان کے شوہر ابو اسامہ کو بھی بار بار گرفتار کر کے انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دے چکے ہیں مگر صہیونیوں کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں کے باوجود میں اپنا قلم بند نہیں کروں گی۔
انہوں نے کہا کہ میرے شوہر دو سال تک اسرائیلی جیل میں قید رہے۔ اس دوران صہیونی تفتیش کار ان سے ایک ہی بات بار بار کرتے کہ تمہاری بیوی کا قلم اسرائیلی ریاست اور یہودیوں کے لیے مشکلات کا موجب بن رہا ہے۔ اس لیے اسے اخبارات میں اسرائیل کے خلاف لکھنے سے منع کر دو مگر میرے شوہر نے صہیونی فوجیوں اور تفتیش کاروں کے مظالم کے باوجود ان کے دباؤ میں آنے سے صاف انکار کر دیا اور واضح کیا ہے کہ ہم حق کے لیے آواز بلند کرتے رہیں گے چاہے اس کےنتائج کچھ بھی ہوں۔