(فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) آل سعود سے وابستہ میڈیا نے "ریاض ۔تل ابیب” تعلقات کے سلسلے میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کے کالم نگاروں نے صیہونی حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار کرنے کے لئے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے مقصد سے مضامین اور کالم لکھنے شروع کر دیئے ہیں۔عرب ملکوں میں سرگرم معروف صیہونی تحقیقاتی مرکز "مڈل ایسٹ میڈیا ریسرچ انفارمیشن” نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں یہودیوں کی مخالفت سے دستبردار ہونے اور ان کی ترقی و پیشرفت سے کچھ سیکھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کے پرنٹ میڈیا میں حال میں ایسے مضامین اور کالم شائع ہوئے ہیں کہ جن کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان مضامین میں کالم نگاروں کی جانب سے عرب دنیا خصوصا سعوی عرب میں یہودی مخالف رجحان کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے اس صیہونیت مخالف رجحان پر کڑی تنقید کی گئی ہے۔
سعودی کالم نگاروں نے قارئین اور عرب رائے عامہ پر زور دیا ہے کہ وہ صیہونیوں کی مخالفت کرنا بند کر دیں۔ سعودی عرب کے کالم نگاروں نے اپنے مضامین میں یہودیوں کی مذمت میں نازل ہونے والی قرانی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان آیات میں تمام یہودیوں کی مذمت نہیں کی گئی ہے بلکہ یہ ایک خاص زمانے سے تعلق رکھتی ہے۔
آل سعود کے دربار سے وابستہ کالم نگاروں کے مطابق عرب اور اسلامی دنیا میں بقول ان کے یہودیوں کی اندھی مخالفت کی بنا پر مسلم امہ اور عرب دنیا ترقی و پیشرفت کے لئے یہودیوں کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے سے قاصر رہی۔
ایک عرب دانشور”زہیر اندراوس” کے مطابق سعودی اخبارات میں اس قسم کے کالم اور مضامین کی اشاعت کو کہ جن میں علاقے میں یہودی حکومت کی اساس کو عقل و منطق پر استوار قرار دیتے ہوئے عربوں کو یہودیوں کی پیروی کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اتفاقی امر نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ ایک منصوبہ بند اقدام ہے جو ایک سعودی فوجی جنرل انور عشقی کے دورہ اسرائیل کی خبروں کے منظر عام پر آنے کے ساتھ شروع کیا گیا ہے کہ جس کا مقصد تل ابیب اور ریاض کے تعلقات کو معمول پر لانا ہے۔
واضح رہے کہ سعودی میڈیا سے متاثر بعض ٹی وی چینلوں نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے جانے کے اوصاف اور خوبیاں بیان کرنے کا کام شروع کر رکھا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے اخبارات اور اس کے زیر اثر میڈیا بڑی مہارت سے لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ عربوں اور مسلمانوں کی لڑائی صیہونیوں سے نہیں بلکہ یہودیوں سے ہے۔