خیال رہے کہ سنہ 1976ء کو لبنان میں تل الزعتری کے مقام پر اسرائیل نواز لبنانی دائیں بازو کے شدت پسندوں نے 52 روز تک فلسطینی پناہ گزین کیمپ کا محاصرہ جاری رکھتے ہوئے کیمپ کی 60 ہزار سے زائد آبادی پر 55 ہزار بم برسائے تھے جس کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی پناہ گزین بچے، عورتیں اور مرد شہید ہوگئے تھے۔
بارہ اگست 2016ء کو اس المناک واقعے کو 40 سال پورے ہوگئے مگرچار دہائیاں قبل ہونے والے قتل عام کی ہولناکیاں آج بھی تازہ ہیں۔
جنیوا میں صدر دفتر سے جاری ’یورو مڈل ایسٹ آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تل الزعتری کیمپ میں فلسطینیوں کے قتل عام کے حقیقی اعدادو شمار کبھی سامنے نہیں آئیں گے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دسیوں شہداء آج تک قبروں میں دفن نہیں کیے جاسکے ہیں۔
تل الزعتری کیمپ میں چالیس سال قبل ہونے والی دہشت گردی کے نتیجے میں سیکڑوں بے گناہ شہری مارے گئے۔ مقامی آبادی کے پاس شہریوں کو دفن کرنے کے لیے جگہ نہیں تھی۔ درجنوں شہداء کو ایک ایک میٹر سے بھی کم گہرے گڑھے کھود کرانہیں دفن کیا گیا۔ بعض کو قبرستانوں کے بجائے کار پارکننگ کے لیے مختص مقامات اور دیواروں کے احاطوں میں دفن کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تل زعتری قتل عام کےتین ماہ کے بعد کیمپ میں ایک عارضی قبرستان کا پتا چلایا گیا جس میں 80 افراد کو درگور کیا گیا تھا۔
تل الزعتری پناہ گزین کیمپ میں فلسطینیوں کے قتل عام کے مختلف اعدادو شمار بیان کیے جاتے ہیں۔ بعض نے ہلاکتوں کی تعداد 1500 بیان کی ہے۔ بعض 2000 بتاتے ہیں جب کہ اس جارحیت میں کم سے کم 4 ہزار 280 فلسطینیوں کو شہید کیا گیا تھا۔