(فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطینی قوم کی طرح ان کی مدد کرنے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں مظلوم فلسطینیوں کی معاونت کرنے والے عالمی، علاقائی اور مقامی فلاحی ادارے بھی صہیونی ریاست کی مذموم و مکروہ سازشوں اور انتقامی پالیسیوں کا شکار چلے آ رہے ہیں۔
امدادی اداروں کو انتقام کا نشانہ بنائے جانے کی صہیونی تاریخ بھی برسوں پرانی ہے مگر حالیہ ایام میں اسرائیل کی اس شرانگیزی میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ صہیونی ریاست کی جانب سے فلسطینیوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والے اداروں، شخصیات، کمیٹیوں اور مہمات کو کیوں کر نشانہ انتقام بنایا جا رہا ہے؟ رپورٹ میں انہی سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے۔حال ہی میں اسرائیلی ریاست کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ پولیس نے غرب اردن سے ایک فلسطینی نوجوان کو حراست میں لیا ہے جو امریکا کے فلسطین میں کام کرنے والے فلاحی ادارے’’ورلڈ ویژن‘‘ کا ڈائریکٹر ہے۔ ابھی اس خبرکی بازگشت سنائی دے رہی تھی کہ صہیونی ریاست کی طرف سے دوسرا الزام عائد کیا گیا کہ اقوام متحدہ کا ادارہ ’’یو این ڈی پی‘‘ غزہ کی پٹی میں اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کو مالی معاونت فراہم کر رہا ہے۔
صہیونی ریاست کی طرف سے الزام عائد کیا گیا کہ ’’ورلڈ ویژن‘‘ اسرائیل کے خلاف ’’دہشت گردی‘‘ کی کارروائیوں کو ترویج دینے میں ملوث ہے۔ یہ الزام ایک ایسے وقت میں عائد کیا گیا جب پہلے ہی صہیونی ریاست فلسطین میں کام کرنے والے بین الاقوامی اداروں اور NGO,s کے خلاف آئے روز زہر اگل رہی ہے۔ کسی بھی ادارے کو بدنام کرنے اور اسے متنازع بنانے کے لیے یہ سب سے بڑا الزام ہوتا ہے کہ فلاں ادارہ دہشت گردی کی معاونت میں ملوث ہے۔ فلسطین میں رفاہی اور فلاحی خدمات انجام دینے والے بیشتر غیرملکی اور مقامی ادارے صہیونی ریاست کی اسی طرح کی مکروہ مہم کا سامنا کر رہے ہیں۔
اسرائیل کی طرف سے منظم اور طے شدہ حکمت عملی کے تحت فلسطین میں خدمات انجام دینے والی این جی اوز کو نشانہ انتقام بنایا جاتا ہے مگر صہیونی ریاست کے منفی پروپیگنڈے کے علی الرغم فلسطینی قوم کے عزم اور ان اداروں کےغیرمتزلزل ارادے میں خاطر خواہ کمی واقع نہیں ہوتی۔ اسرائیل کا اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ کوئی ادارہ یا این جی فلسطینیوں کی بہبود کے لیے کام نہ کرے۔ اسے اتنا متنازع اور خطرناک بنا کر پیش کیا جائے کہ وہ کام چھوڑ کر فلسطین سے نکل جائے۔ اس طرح این جی اوز کے کام ٹھپ ہونے سے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا سکے گا۔
منصوبوں کی مانیٹرنگ کی سازش
سنہ 2011ء میں صہیونی بحریہ کے کمانڈوز نے غزہ کی پٹی کے محصورین کے لیے آنے والے عالمی امدادی قافلے’’مرمرہ‘‘ پر کھلے سمندر میں شب خون مارا۔ اس قافلے میں حصہ لینے والے ترک رضاکاروں پر وحشیانہ فائرنگ کر کے دس رضاکاروں کو شہید کیا گیا اور پچاس کو زخمی کر دیا گیا۔
اسرائیل نے اسی پر اکتفاء نہ کیا بلکہ غزہ کی پٹی کا محاصرہ توڑنے کے لیے سرگرم تمام اداروں کی ایک فہرست مرتب کی گئی۔ اسرائیل کے بدنام زمانہ خفیہ ادارے’’موساد‘‘ نے اس فہرست کی روشنی میں فلسطین میں ان اداروں کے جاری منصوبوں کی مانیٹرنگ کے لیے ایک نیا شعبہ قائم کیا گیا جسے Israel NGO Monitoring کا نام دیا گیا۔ یہ شعبہ دراصل فلسطین میں فلاحی شعبے میں کام کرنے والے اداروں کی گردن دبوچنے کی ایک گھناؤنی صہیونی سازش تھی اور اس کے ذریعے کئی اداروں کو مشکوک قرار دے کرانہیں کام سے روکا گیا۔ کئی این جی اوز کے جاری منصوبوں کو ہی ٹھپ کر دیا گیا اور یہ الزام عائد کیا گیا کہ فلاں فلاں ادارے اور منصوبے اسرائیلی ریاست کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ فلسطین کے بعض علاقوں میں بے گھر افراد کی بحالی کے لیے یورپی یونین کی معاونت سے مکانات کی تعمیر کے کئی منصوبے شروع کیے گئے تھے مگر اسرائیل نے نہ صرف جاری منصوبوں کو روکا بلکہ یورپی یونین کے تعاون سے بنائے گئے مکانات کی اب تک مسماری جاری ہے۔
یوں نام نہاد سیکیورٹی وجوہات کو بنیاد پر بنا کر فلسطین میں کام کرنے والے اداروں کا قلع قمع کرنے کی مذموم کوششیں شروع کی گئیں جو اب بھی جاری ہیں۔
فلسطین میں نجی شعبے میں کام کرنے والے ایک سماجی کارکن احمد صبح نے بتایا کہ اسرائیل نے مانیٹرنگ کی آڑ میں فلسطین میں کام کرنے والی عالمی اور مقامی تنظیموں کے خلاف ایک خوفناک سازش شروع کی۔ مانیٹرنگ کی آڑ میں شروع کی گئی مہم نے فلسطین میں کام کرنے والے فلاحی اداروں کو غیرمعمولی نقصان پہنچایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’موساد‘‘ کا مانیٹرنگ سیل دراصل فلسطین میں کام کرنے والے اداروں پر ایک بم بن کر گرا جس نے غیرملکی فنڈنگ سے چلنے والے دسیوں اداروں کو محض انتقامی سیاست کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے ان کی بندش کی راہ ہموار کی۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ صہیونی ریاست کے خلاف گذشتہ پانچ سال سے ’’بائیکاٹ‘‘ کی ایک بین الاقوامی تحریک پورے شد و مد کے ساتھ جاری و ساری ہے جس پر صہیونی ریاست سیخ پا ہے۔ اسرائیل کو یہ بات قطعاً برداشت نہیں ہو رہی کہ عالمی سطح پر اس کا بائیکاٹ جاری رہے اور وہ فلسطین میں بین الاقوامی فلاحی اداروں کو کام کی کھلی چھوٹ دے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے مانیٹرنگ سیل کے قیام کے ذریعے فلسطین میں خدمات انجام دینے والی غیرملکی این جی اوز کا گلا گھونٹنے کی مذموم سازشیں شروع کر دیں۔