فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق فلسطین میں اسیران کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے’اسیران اسٹڈی سینٹر‘ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شمالی غزہ کی ’بیت حانون‘ (ایریز) گذرگاہ اسرائیلی فوج کے لیے فلسطینیوں کی گرفتاریوں کی خاطر ایک شکار گاہ کا مقام رکھتی ہے۔ اسرائیلی فوج اور خفیہ ادارے فلسطینیوں کو اس گذرگاہ تک تو آنے کی اجازت دیتے ہیں مگر وہاں پہنچنے والوں کو مختلف مکروہ حربوں کے ذریعے زد و کوب کیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شمالی غزہ کی پٹی کا مغربی کنارے اور سنہ1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے یہ واحد اہم ترین زمینی راستہ ہے مگر صہیونی فورسز غزہ کی پٹی کے شہریوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر انہیں بلیک میل کرنے اور انہیں حراست میں لینے کے لیے اس گذرگاہ کا مذموم استعمال کر رہی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیت حانون گذرگاہ سے غرب اردن اور شمالی فلسطین کی طرف سفر کرنے والے فلسطینی تاجروں، طلباء اور مریض شہریوں کو بھی معاف نہیں کیا جاتا۔ رواں سال صہیونی فوجیوں نے غزہ کی پٹی سے علاج کے لیے غرب اردن جانے والے پانچ مریضوں کو گرفتار کیا۔ ان میں سے دو زخمی تھی۔ چار کاروباری شخصیات کو حراست میں لیا گیا۔ گرفتار کیے جانے والوں میں دو طلباء، فلاحی ادارے کا ایک عہدیدار اور دو کھلاڑی بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ گذرگاہ سے آر پار جانے والوں کو بلیک میل کرنے اور ہراساں کرنے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
انسانی حقوق گروپ نے بین الاقوامی برادری اور عالمی تنظیموں سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کے شہریوں کی غرب اردن اور شمالی فلسطین کے علاقوں میں آمد ورفت یقینی بنانے کے لیے صہیونی فورسز کی کارروائیوں کو روک تھام کریں کیونکہ بیت حانون گذرگاہ کو شکار گاہ بنائے جانےسے غزہ کی پٹی کے شہری ایک کھلی جیل میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ گرفتاری اور تشدد کے ڈر سے فلسطینی شہری غرب اردن کی طرف سفر سے بھی گریز کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی تعداد 7 ہزار سے زائد ہے جن میں سے 380 فلسطینیوں کا تعلق غزہ کی پٹی سے ہے۔