یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم فرانسیسی منصوبے پر ، مصر میں ایک علاقائی کانفرنس کو ترجیح دیتے ہیں۔ نیتنیاہو فرانسیسی منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے اس کو تنازع کا حل مسلط کرنے کی بین الاقوامی کوشش قرار دیتے ہیں۔ سال 2007ء کے بعد مصری وزیر خارجہ اسرائیل کا دورہ کرنے والی پہلی سرکاری شخصیت ہیں۔
سامح شکری کا دورہ مردہ سیاسی عمل میں پھر سے جان ڈالنے کے منصوبے سے مربوط ہے۔ یہ منصوبہ مصری صدر نے چند ہفتے پہلے متعارف کرایا جس میں انہوں نے اسرائیلی سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ دو ریاستی حل کے حوالے سے اپنی قوتوں کو یکجا کریں۔ تاہم نیتن یاہو نے لیبر پارٹی کے بجائے حکومت میں افیگدور لیبرمین کو حکومت میں شامل کرلیا جو اپنی شدت پسندی کے سبب جانے جاتے ہیں۔ سامح شکری نے دو ہفتے قبل فسلطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کی تھی۔ یہ بات واضح ہے کہ وہ اسرائیل میں صرف مذاکرات کا معاملہ زیربحث نہیں لائے بلکہ انہوں نے سیناء میں داعش کے مسئلے اور غزہ پٹی کی زمینی صورت حال کے تناظر میں اسرائیل اور ترکی کے درمیان مصالحت کے معاہدے پر بھی اپنی رائے پیش کی۔
اسرائیلی فلسطینی مذاکرات اور اس دوران وعدوں میں لپٹے منصوبوں اور تجاویز پر دو عشروں سے زیادہ گزر جانے کے بعد ، فلسطینی جانب سے اس بات پر کامل ایقان ظاہر ہورہا ہے کہ حل کو اسرائیل پر مسلط کیے بغیر اس پر عمل درامد نہیں ہوسکے گا اور نیتن یاہو اس وقت کسی حل کا نہیں بلکہ مشکل کا حصہ ہیں۔