(فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیلی فوج نے دو سال قبل بیت المقدس میں ایک فلسطینی بچے کو ہولناک تشدد اور آگ لگا کر زندہ جلائے جانے کے سنگین جرم میں ملوث یہودی دہشت گردوں کے مکانات گرائے جانے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ فلسطینیوں کی مزاحمتی کارروائیاں کسی
فلسطینی کو یہودیوں کے ہاتھوں زندہ جلائے جانے سے بھی زیادہ سنگین ہیں۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ابو خضیر کے قاتلوں کے گھروں کو مسمار نہیں کریں گے کیونکہ ابوخضیر ایک فلسطینی تھا اور اس کے قاتل یہودی ہیں۔ جب کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی انفرادی اور اجتماعی مزاحمتی کارروائیاں کسی فلسطینی کو زندہ جلانے سےزیادہ سنگین ہیں۔ اس لیے فلسطینیوں کے گھر مسمار کیے جائیں گے مگر یہودیوں کے گھروں کو نہیں چھیڑا جائے گا۔
خیال رہے کہ دو سال قبل بیت المقدس سے تعلق رکھنے والے ایک 14 سالہ فلسطینی لڑکے محمد ابو خضیر کو تین یہودی دہشت گردوں نے اغواء کے بعد ایک ویران جگہ لے جا کر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کے بعد اسے آگ لگا کر زندہ جلا دیا گیا تھا۔
اسرائیلی پولیس نے اس بھیانک واقعے میں ملوث تین یہودی دہشت گردوں کو گرفتار کیا اور تینوں کو عدالتوں سے سزا ہو چکی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے فلسطینی لڑکے کو زندہ جلانے کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ واقعہ اتنا ہی سنگین ہے جتنا کہ فلسطینیوں کے ہاتھوں اسرائیلیوں کا قتل سنگین ہے۔ ان یہودیوں کے خلاف بھی قانون اسی طرح حرکت میں آئے گا جس طرح فلسطینی مزاحمت کاروں کے خلاف آتا ہے۔ ان کے گھروں کو بھی مسمار کیا جائے گا۔
اسرائیلی اخبار کا کہنا ہے کہ ابوخضیر شہید کے اہل خانہ نے اسرائیلی سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے ابوخضیر کے قاتلوں کے گھروں کو مسمار کرنے کا مطالبہ کریں گے۔
واضح رہے کہ اسرائیلی فوجیوں پر چاقو سے حملے کرنے والے فلسطینیوں کے گھر چند دنوں کے اندر اندر مسمار کر دیے جاتے ہیں۔ گھروں کی مسماری صہیونی ریاست کی ایک نئی ظالمانہ پالیسی ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ کا زور توڑنا ہے مگر مکانات مسماری کی پالیسی کے باوجود فلسطینیوں کی تحریک اسی رفتار سے جاری ہے۔