اقوام متحدہ کے ادارے’اوچا‘ کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں سنہ 2014ء کی جنگ کے اختتام پر طے پائی جنگ بندی کے بعد سنہ 2015ء میں اس وقت غزہ میں دوبارہ شہریوں کا جانی نقصان ہوا تھا جب غرب اردن اور مقبوضہ بیت المقدس میں صہیونی ریاست کے خلاف تحریک انتفاضہ شروع ہوئی تھی۔
اوچا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ2006ء کے بعد فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاروں اور فوج کی کارروائیوں میں غرب اردن میں فلسطینیوں کو 11 ہزار 200 قیمتی اور پھل دار پودوں سے محروم کیا گیا۔
سنہ 2015ء میں اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی تعداد 6 ہزار تھی جو سنہ 2010ء کے بعد سب سے زیادہ تعداد بتائی جاتی ہے۔ سنہ 2008ء میں فلسطینی سیران کی تعداد چھ ہزار سے تجاوز کر گئی تھی۔ جن میں 422 کم سن بچے بھی شامل تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر مسلط کردہ جنگوں کے نتیجے میں بڑی تعداد میں شہری بے گھر ہوئے۔ سنہ 2014ء کے وسط میں 52 روز تک جاری رہنے والی جنگ کے نتیجے میں 70 ہزار فلسطینی شہری بے گھر ہوئے جن میں سے ہزاروں کی تعداد میں آج بھی بے گھر ہیں۔
عالمی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینیوں کی مکانات کی مسماری کے نتیجے میں بھی بڑی تعداد میں شہری بے گھر ہو رہے ہیں۔ سنہ 2015ء میں اسرائیل کے 598 مکانات مسمار کیے اور 858 فلسطینیوں کو بے گھر کیا گیا۔ اس سے پچھلے سال مکانات مسماری کے نتیجے میں 787 فلسطینی بے گھر ہوئے تھے۔