(فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک سرکردہ تنظیم نے صہیونی فوجیوں کے خلاف ان کی غلط کاریوں اور جرائم پر شکایات کے اندراج سے دستبردار ہونے کا اعلان کردیا ہے۔
غربِ اردن کے علاقے پر اسرائیل کے قبضے کے خلاف تحریک چلانے والی انسانی حقوق کی تنظیم بی تسلیم نے اپنی کارکردگی سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی ہے۔اس میں تنظیم نے کہا ہے کہ وہ فوجیوں کے مظالم کے خلاف سرکاری چینلز کے ذریعے سالہا سال سے شکایات درج کرارہی تھی لیکن ان میں سے صرف چند ایک کے خلاف مقدمہ چلانے اور انھیں سزائیں دینے کی نوبت آئی ہے۔بی تسلیم کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ پچیس سال سے ملٹری ایڈووکیٹ جنرل کور کو فوجیوں کے فلسطینیوں کے خلاف مظالم کے بارے میں معلومات فراہم کررہی تھی لیکن اب وہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ یہ تو ایک ”وائٹ واش میکانزم” ہے۔
اس تنظیم نے اپنی تازہ رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ فوجی قانونی نظام کے تحت شکایات کے اندراج کا عمل جاری رکھنا کسی اچھائی کے بجائے ضرررساں ثابت ہوگا۔ اسرائیلی فوج نے فوری طور پر اس رپورٹ پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
واضح رہے کہ ملٹری ایڈووکیٹ جنرل (ایم اے جی) اسرائیلی فوج میں قانون کی حکمرانی کی نگرانی کا ذمے دار ہے لیکن بی تسلیم نے ایم اے جی کے اس کردار کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ فوج کی تفتیش وتحقیقات سست رفتار اور غیر موثر ہوتی ہیں اور شاذ ونادر ہی ان کے نتیجے میں کسی فوجی پر فرد جرم عائد کی جاتی ہے۔
تنظیم نے 80 صفحات کو محیط اس رپورٹ میں آٹھ حالیہ کیسوں کا حوالہ دیا ہے۔ان میں چار فلسطینیوں کی شہادت سے متعلق تھے۔تنظیم کا کہنا ہے کہ اس سے فوج کی غیرمعیاری تفتیش کی عکاسی ہوتی ہے۔
فلسطینی علاقوں پر قبضے کی مخالف ایک اور غیر سرکاری تنظیم یش دین کے مطابق گذشتہ پانچ سال کے دوران فوجی پولیس نے اسرائیلی فوجیوں کے فلسطینیوں کے خلاف مرتکبہ جرائم میں سے صرف تین فی صد کی فوجداری تحقیقات کی ہیں اور ان کے نتیجے میں فرد جرم عائد کی گئی ہے۔
بی تسلیم کا کہنا ہے کہ ”فوجی قانونی نظام جس طرح کام کرتا ہے،اس سے تو متاثرہ افراد کو انصاف نہیں مل سکتا۔اس لیے اس نظام کے ساتھ مل کر کام کرنے اور انسانی حقوق کے دفاع کا کوئی جواز نہیں رہا ہے کیونکہ اس کا اصل کام تو فوجیوں کے جرائم کی کامیابی سے پردہ پوشی اور مجرموں کو تحفظ مہیا کرنا رہ گیا ہے”۔