1948ء کے مقبوضہ فلسطین میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیم ’’بٹسیلم‘‘ کے مطابق تنظیم نے اسرائیلی فوج کی اعلی قیادت اور چیف آف جنرل سٹاف کو اس ضمن میں ایک ھنگامی خط ارسال کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ صہیونی اہلکاروں نے سنگ باری کرنے والے دو نوجوانوں پر ایسی حالت میں فائرنگ کی جب ان کی جانب سے فوجیوں کو کوئی خطرہ درپیش نہ تھا۔
تنظیم نے اسرائیلی حکومت کی جانب سے پتھراؤ کرنے والے فلسطینیوں پر فائرنگ کرنے کی اجازت کو انتہائی شرمناک قرار دیا اور دو نوجوانوں کے اس بہیمانہ قتل پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ بٹسلیم نے بتایا کہ اسرائیلی فوجی اہلکاروں نے مغربی کنارے میں غزہ پر بمباری کی مذمت اور اہل غزہ سے اظہار یک جہتی میں نکالے جانے والے مظاہروں کے شرکاء پر اندھا دھند ربڑ کی گولیوں کی بوچھاڑ کی تھی جس میں درجنوں فلسطینی زخمی بھی ہوگئے تھے۔
تنظیم نے کہا کہ کہ صہیونی قیادت کی جانب سے پتھراؤ کرنے والے فلسطینیوں پر فائرنگ کھولنے کی اجازت کا معاملہ انتہائی مشکوک ہے اور تحقیق کرنے سے اس میں صہیونی فوجی قیادت کی بددیانتی نظر آتی ہے۔ یاد رہے کہ ہفتے کے روز مغربی کنارے کی مغربی سرحد کے قریبی گاؤں نبی صالح علیہ السلام میں احتجاجی مظاہروں کے دوران اسرائیلی فائرنگ سے اکتیس سالہ نوجوان رشدی تمیمی شہید ہوگیا تھا۔
جبکہ پیر کے روز الخلیل کے حلحول بریج کے قریب جھڑپوں میں بائیس سالہ نوجوان حمدی فلاح پیر کے روز شہید ہوا۔ انسانی حقوق کی تنظیم نے ان دونوں کی شہادت کی تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ دونوں نوجوان صرف اسرائیلی فوج پر پتھراؤ میں ملوث تھے، اسرائیلی فوج نے غیر مسلح ہونے کے باوجود ان نوجوانوں پر براہ راست فائرنگ کر دی تھی۔