اسرائیلی حکومت نے پہلی مرتبہ سرکاری سطح پریہودیوں کی دوسرے ملکوں میں منتقلی کے غیرمعمولی رجحان کا اعتراف کیا ہے۔ صہیونی حکومت کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے
کہ سنہ 2010ء کے بعد سے یہودیوں کی دوسرے ملکوں بالخصوص یورپ اور امریکا کی جانب منتقلی کے رجحان میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا گیا ہے، جس نے اسرائیلی ریاست کے مستقبل کو ایک بڑے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیل کے مرکزی شعبہ شماریات نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جسے بڑے پیمانے پراسرائیلی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے بھی نقل کیا ہے۔ رپورٹ میں یہودیوں کی دوسرے ملکوں میں منتقلی کے بڑھتے رجحان پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ دو ہزار دس کےبع سے ابک کم سے کم 15 ہزار یہودی اسرائیل چھوڑ چکے ہیں۔ اسرائیل سے ترک وطن کرنے والے یہودی یا تو امریکا منتقل ہو رہے ہیں یا وہ یورپ اور دوسرے ملکوں کو جا رہے ہیں۔
رپورٹ میں دوسرے ملکوں سے یہودیوں کی اسرائیل آمد میں کمی پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق خطے میں جاری سیاسی تبدیلیوں نے دوسرے ملکوں سے یہودیوں کے اسرائیل منتقلی کے رجحان کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اسرائیل کے اندرونی خلفشار، فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت اور صہیونی ریاست کے مالیاتی بحران کے باعث دوسرے ملکوں میں موجود یہودی اسرائیل آنے سے گریز برت رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک میں کم سے کم 08لاکھ سےزائد یہودی موجود ہیں اور اسرائیلی حکومتیں انہیں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں لاکر آباد کرنا چاہتی ہیں۔