مصر کے ایک ممتاز قانون دان اور وکیل مصطفیٰ علوان نے پراسیکیوٹر جنرل عبدالمجید محمود کی عدالت میں ایک ایف آئی آر جمع کرائی ہے جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ فلسطینی جماعت الفتح کے منحرف لیڈر محمد دحلان سیناء کے علاقے میں گذشتہ اتوار کے روز مصری فوجیوں پر ہوئے دہشت گردانہ حملے میں ملوث ہیں۔ ایف آئی آر میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ محمد دحلان نے مصری فوجیوں پر حملے کے لیے اسرائیلی خفیہ تنظیم‘‘موساد’’ کے ساتھ تعاون کیا تھا اور انہیں حملے پر اکسایا تھا۔ خیال رہے کہ گذشتہ اتوار کو شمالی سیناء میں نامعلوم مسلح افراد نے مصری فوجیوں پر حملہ کرکے سولہ فوجیوں کو قتل کردیا تھا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق مصری پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر میں درج کرائی گئی ایف آر نمبر 2177 مجریہ سنہ 2012ء میں کہا گیا ہے کہ مصری فوجیوں پر حملے میں‘‘فری مصر’’ کے نام سے سرگرم ایک دہشت گرد گروپ ملوث ہے۔ یہ گروپ فتح کے منحرف لیڈر محمد دحلان کی قیادت میں کام کرتا ہے اور اس کی براہ راست نگرانی اسرائیلی خفیہ ادارہ ‘‘موساد’’ کرتا ہے۔
فرسٹ انفارمیشن رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محمد دحلان کے مصری فوجیوں کے قتل میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد اور ثبوت موجود ہیں۔ ان شواہد میں سے ایک اہم گواہی دحلان کی جانب سے مصری فوجیوں کی چوکیوں اور ان کے ٹھکانوں کے بارے میں موساد کو نقشوں کی فراہمی بھی ہے۔ یہ نقشے دحلان کی جانب سے حال ہی میں صہیونی خفیہ ادارے کے اہلکاروں کو فراہم کیے گئے ہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ محمد دحلان کی مشکوک سرگرمیوں کےخلاف کچھ عرصہ قبل بھی سابق پراسیکیوٹر جنرل احمد البحراوی اور قاہرہ کے اٹارنی جنرل سیف ابو سمرہ کی عدالتوں میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں تاہم ان دونوں عدالتوں نے دحلان کے بارے میں درخواستوں پر کسی قسم کی تحقیقات نہیں کیں، جس کے باعث دحلان کو صہیونی حکام کے ساتھ مل کر مصری فوجیوں کےخلاف سازش کرنے کا موقع ہاتھ آگیا تھا۔ لہٰذا اس درخواست میں بھی ایک مرتبہ پھر پراسیکیوٹر جنرل سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ محمد دحلان اور اس کے گروپ کے خلاف تحقیقات کا آغاز کریں۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین