(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) فلسطینی شہداء ،زخمیوں اور اسیران کے لواحقین نے فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت قائم نا نہاد اقتصادی ادارہ تمکین کی سرگرمیاں بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور ادارے کی جانب سے کیے گئے اقدامات پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے خاص طور پر اپنے خاندانوں کی مالی ماراعات بند کیے جانے کو ظلم و ناانصافی قرار دیا ہے۔
ایک پریس بیان میں شہداء ،زخمیوں اور اسیران کے لواحقین نے کہا کہ یہ اقدام قومی اصولوں پر ایک سنگین حملہ ہے اور فلسطینی عوام کے ان طبقات کو براہ راست نشانہ بنانا ہے جنہوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ مالی مراعات بند کرنے کے فیصلوں کو محض انتظامی اقدامات قرار نہیں دیا جا سکتا جیسا کہ اس کی تشہیر کی جا رہی ہے بلکہ یہ سیاسی محرکات کے حامل تادیبی اقدامات ہیں جو قابض اسرائیل کی ان پالیسیوں کی خدمت کر رہے ہیں جن کا مقصد مجاہد اور ثابت قدم خاندانوں کے حوصلے توڑنا ہے۔
بیان پر دستخط کرنے والوں نے زور دیا کہ شہداء ،زخمیوں اور اسیران کی مراعات ایک مسلمہ حق ہیں جن پر کسی قسم کی سودے بازی یا دباؤ قبول نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان حقوق پر ہاتھ ڈالنا ان کی عظیم قربانیوں سے انکار اور قومی جدوجہد کے مفہوم سے غداری کے مترادف ہے۔
بیان میں اقتصادی ادارہ تمکین کو ان سنگین انسانی اور سماجی نتائج کا مکمل ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے جو سیکڑوں فلسطینی خاندانوں کو فاقہ کشی کی طرف دھکیلنے کے باعث پیدا ہو رہے ہیں۔
شہداء ،زخمیوں اور اسیران کے لواحقین نے ایک بار پھر روزی روٹی کو دباؤ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی سختی سے مذمت کی اور ان اقدامات کو مسترد کیا جنہیں انہوں نے توہین آمیز اور مشتبہ قرار دیا۔
بیان میں مطالبہ کیا گیا کہ تنخواہیں بند کرنے کے تمام فیصلے فوری طور پر منسوخ کیے جائیں اور تمام واجبات غیر مشروطاور ماضی کی تاریخ سے مکمل طور پر بحال کیے جائیں۔
اسی طرح بیان میں ان فیصلوں کے ذمہ داران کے احتساب کے لیے کھلی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا اور فلسطینی اتھارٹی سے کہا گیا کہ وہ اپنی قانونی اور سیاسی ذمہ داریاں مکمل طور پر نبھائے۔
بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ خاموشی کا دور ختم ہو چکا ہے اور شہداء زخمیوں اور اسیران کے لواحقین ان جابرانہ فیصلوں کے خاتمے تک تمام قانونی اور عوامی ذرائع سے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
واضح رہے کہ گذشتہ فروری کو فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے تحت شہداء زخمیوں اور اسیران کے خاندانوں کو مالی معاوضہ جات کی ادائیگی سے متعلق قوانین اور ضوابط کی شقیں منسوخ کر دی گئی تھیں اور ان معاوضوں کی ادائیگی کے اختیارات فلسطینی قومی ادارہ برائے اقتصادی تمکین کو منتقل کر دیے گئے تھے۔
اس صدارتی فیصلے کو اسیران کے اداروں کی جانب سے وسیع پیمانے پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا جنہوں نے تمکین ادارے کی جانب سے اسیران پر سماجی سروے فارم مسلط کرنے کی کوششوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اقدامات ان کی قربانیوں اور جدوجہد کے منافی ہیں اور ان کے قومی مقام کے شایان شان نہیں۔