(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) غزہ کی سرزمین ایک بار پھر خونریزی کا شکار ہوئی۔ پیر کی شام، قابض اسرائیلی فوج نے غزہ شہر کے التفاح محلے میں یأفا اسٹریٹ پر ایک وحشیانہ فضائی حملہ کیا، جس کا ہدف وہ افراد تھے جو جانیں بچانے کی کوشش میں مصروف تھے۔ اس حملے میں ایک بہادر صحافی، مؤمن ابو عوف، اور تین فلسطینی امدادی کارکن، حسین محیسن، براء عفانہ، اور رائد العطار شہید ہوگئے۔
یہ افراد ملبے تلے دبے زخمیوں کو نکالنے کی کوشش کر رہے تھے کہ قابض اسرائیل نے انہیں براہ راست نشانہ بنایا۔ وہ نہ تو مسلح تھے اور نہ ہی کوئی خطرہ پیش کر رہے تھے۔ ان کا واحد مقصد انسانیت کی خدمت تھا۔ تاہم، ظالموں کی نظر میں یہ عمل ہی سب سے بڑا جرم ٹھہرا۔
قابض صہیونی افواج نے پیر کی شام پورے غزہ پر شدید بمباری کی۔ ایک طرف غزہ کے شہری ہسپتالوں میں جگہ نہ ہونے کے باعث کھلے آسمان تلے دم توڑ رہے ہیں، دوسری طرف ان کی مدد کو پہنچنے والے رضاکاروں کو بھی نہیں بخشا جا رہا۔
مقامی ذرائع کے مطابق، قابض صہیونی جنگی طیاروں نے التفاح محلے میں الشعراوی اور الحداد عمارتوں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں متعدد افراد شہید اور درجنوں شدید زخمی ہوئے۔
غزہ کے بے بس شہریوں کے لیے مؤمن ابو عوف اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے امدادی کارکن صرف افراد نہیں تھے؛ وہ امید کی کرن، زندگی کا سہارا، اور دکھوں کا مداوا تھے۔ ان کے خون سے رقم کی گئی یہ داستان اس بات کا پیغام دے رہی ہے کہ قابض اسرائیل کی نسل کشی صرف عمارتوں کی تباہی نہیں، بلکہ انسانیت کی بنیادوں پر ایک حملہ ہے۔
قابض صہیونی فوج کے حملے اب صرف جنگی محاذ تک محدود نہیں رہے؛ وہ خبر کے محافظوں اور رحمت کے فرشتوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ حملے اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ فلسطینیوں کے خلاف ایک منظم نسل کشی جاری ہے، اور اس پر خاموشی اختیار کرنا بھی ایک جرم ہے