(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) معروف اسرائیلی اخبار کا دعویٰ ہے کہ عدلیہ کے خلاف نیتن یاھو کی حکومت کے منصوبے کی وجہ سے فوج مایوس ہے ، افسران اور سپاہیوں کو اب یقین ہو گیا ہے کہ وہ ایک ایسے ملک کی خدمت کر رہے ہیں جو ان کا نہیں ہے۔ اس لیے وہ وہ اس کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
غیر قانونی غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں عسکری ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ صیہونی فوج حالیہ ہفتوں میں بغاوت کی ایک ایسی حالت دیکھ رہی ہے جو اس سے قبل نہیں نا دیکھی گئی اور نا اس کا تصور کیا گیا۔
عدالتی اصلاحات کے نام پر صیہونی عدلیہ کو حکومت کے کنٹرول میں دینے کے بل کے خلاف گذشتہ کئی ماہ سے اسرائیلی شہری سڑکو پر احتجاج کررہےہیں، تاہم صیہونی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی اس صورتحال پر ہٹ دھرمی اور دھمکیاں صورتحال کی سنگینی کو مزید بڑھا رہی ہے۔
صیہونی پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف لائر لاپڈ نے ایک بیان میں کہا کہ نیتن یاہو اسرائیل کو ایک قومی تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں جس سے نکلنے کے لیے کئی نسلیں درکار ہوں گی۔
حزب اختلاف کے رہنما اور سابق اسرائیلی وزیردفاع بینی گینٹز نے نظام حکومت کو اکھاڑ پھینکنے اور عدلیہ کو کمزور کرنے کے منصوبے کو روکنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے یہ منصوبے "تمام مصیبتوں کی بنیاد ہیں۔
دوسری جانب ۔” عبرانی اخبار ’ہارٹز‘کے ملٹری نامہ نگار آموس ہارل نے اپنے تجزیئے میں لکھا ہے کہ حکومت کے منصوبے کی وجہ سے فوج کی صورتحال خطرناک سے زیادہ ہے۔
انھوں نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ آرمی چیف آف اسٹاف ہرزی ہیلیوی اور متعدد اسٹاف کمانڈروں نے وزیر دفاع یوآو گیلنٹ سے ملاقات کی اور انہیں فوج کی صورتحال سے آگاہ کیااور حکومت پر احتجاج کے اثرات پر تبادلہ خیال کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ریزرو میں 4000 سے زیادہ فوجی اور افسران ہیں، جنہوں نے خطوط لکھ کر واضح کیا کہ وہ فوج میں ریزرو سروس کے لیے رضاکارانہ طور پر نہیں آئیں گے
انھوں نے واضح طوپر لکھا ہے کہ اسرائیل فوج کے افسران اور سپاہیوں کو اب یقین ہو گیا ہے کہ وہ ایک ایسے ملک کی خدمت کر رہے ہیں جو ان کا نہیں ہے۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ وہ اس کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہیرل نے کہا کہ "یہ بالکل بھی یقینی نہیں ہے کہ گیلنٹ اور ہیلیوی اس بحران کی سنگینی کا صحیح اندازہ لگاسکتے ہیں۔
ریزرو فوج سے استعفے ان کے اندازے سے زیادہ ہوں گے۔ ان کے بچے باقاعدہ فوج میں بھی خدمت نہ کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ مخالفت کا یہ سلسلہ شن بیٹ (جنرل انٹیلی جنس) اور موساد (غیر ملکی انٹیلی جنس) تک پہنچ سکتا ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو نے ان افسران اور فوجیوں پر قانون کے خلاف بغاوت کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے وقوفی سے کام لیا۔ انہوں نے کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ افسران اور سپاہی ہمیں خطوط بھیجتے ہیں جو اسرائیلی ڈیفنس فورسز اور ریزرو فوج میں خدمات انجام دینے سے انکار کرتے ہیں۔ جمہوریت میں فوج حکومت کے تابع ہوتی ہے۔ دوسری طرف نہیں، جب کہ فوجی نظام میں حکومت فوج کے ماتحت ہوتی ہے۔