(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) فلسطینی اتھارٹی اور صدر محمود عباس کی ماتحت انتظامیہ کے اسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ کے باعث فلسطینی شہریوں پرعرصہ حیات تنگ کردیا ہے جس کانشانہ فلسطینی شہریوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی صحافی بھی بن رہے ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کی صہیونیت نوازی اور فلسطینی صحافت سے نفرت کے مظاہر آئے روز دیکھنے کو ملتے ہیں، یہی وجہ ہےکہ فلسطینی صحافتی حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ فلسطینی صحافیوں کو دانستہ طورپر انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔
تحریک فتح کے 55 ویں یوم تاسیس کے موقع پرمقبوضہ بیت المقدس کے جنوبی شہر جنین میں ہونے والی ایک تقریب میں اسرائیل کے عبرانی ٹی وی چینل ‘2’ کے نامہ نگار یورام بن مناحیم کو بھی دعوت دی گئی جبکہ اس موقع پر سوائے مخصوص فلسطینی صحافیوں کے علاوہ تحریک فتح کی تاسیسی تقریبات کی کوریج سے روک دیا گیا۔
فلسطینی اتھارٹی اور تحریک فتح کی اس دوغلی پالیسی پر فلسطینی عوامی ، صحافتی اور ابلاغی حلقوں کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ سینیر فلسطینی رہ نمائوں نے فتحاوی قیادت اور رام اللہ اتھارٹی کو اڑے ہاتھوں لیا اور مطالبہ کیا ہے کہ تحریک فتح بتائے کہ اس نے آخر صہیونی دشمن کے کسی صحافی کو جلسے کی کوریج کی اجازت کیوں دی گئی اور فلسطینی صحافیوں کو کیوں کر روکا گیا۔
فلسطینی سیاسی، سماجی اور ابلاغی رہ نماؤں کی طرف سے تحریک فتح کی اس پالیسی اور اقدام کو اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی ایک نئی اور گھنائونی شکل قرار دیا گیا۔فلسطینی حلقوں کا کہناہےکہ رام اللہ اتھارٹی اور تحریک فتح کی طرف سے اسرائیلی صحافیوں کی اس طرح آئو بھگت افسوسناک ہے۔
اسرائیلی ریاست کس طرح فلسطینی صحافتی حلقوں کو نشانہ بنا رہا ہے فلسطینی اتھارٹی اسے مسلسل نظرانداز کررہی ہے حالانکہ حال ہی میں اسرائیل نے القدس میں فلسطینی ٹیلی ویژن چینل کو بند کردیا جبکہ دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی اسرائیلیوں کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے ہوئے ہے۔