تل ابیب(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اسرائیل نامی یہودی ریاست میں رہنے والے غیر یورپی یہودیوں کے ساتھ ـ جن کا تعلق مراکش، یمن، ایتھوپیا اور دوسرے ممالک سے ہے ـ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا یا اس سے بھی بد تر، سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
روزنامہ قدس کے مطابق، اس سے پہلے میں جب بھی اسرائیل جاتا تھا (یا وہاں سے گذرتا تھا) اس کی کوئی خاص وجہ ہوتی تھی: غزہ یا ہبرون (الخلیل) میں انتفاضہ تحریک کی وحشیانہ سرکوبی کے بارے میں کچھ لکھنا مقصود ہوتا تھا یا بیت لحم کے اطراف کے اراضی چوری کرنے کے جنون کے بارے میں یا جولان کی غیر آباد اور خوف انگیز پہاڑیوں کے بارے میں، جنہیں اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے قبضے میں رکھا ہوا ہے۔ ماضی میں میں نے تمام علاقوں کا دورہ کیا ہے جیسے: الشفاء اسپتال، غزہ میں واقع رفح کیمپ سے لے کر جولان، اردن کی سرحدوں اور بیت لحم تک۔
میں ہمیشہ بن گورین ایئرپورٹ میں اترتا تھا، ایک شب تل ابیت، بیت المقدس یا حیفا میں قیام کرتا تھا؛ اپنے رابطوں (میرے بائیں بازو کے دوستوں) کے ساتھ ایک جلدبازانہ سی ملاقات کرتا تھا اور صبح کے وقت “محاذ” یا ان محاذوں میں سے ایک محاذ کی طرف نکلتا تھا جو “یہودی ریاست” کی اصلاحات کے مطابق کئی عشروں سے “ایک طرف” چھوڑ دیئے گئے ہیں۔
لیکن اس بار میں نے بالکل نئی روش اپنانے کا فیصلہ کیا۔
جب معلوم ہوا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے شرم و حیا اور صبر و تحمل کو ایک ساتھ چھوڑ دیا ہے، جب معلوم ہوا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اس کے جنون سے حاصل ہونے والے تمام تر فوائد کو اپنی جھولی میں ڈال دے گا!، اور جب میں اس یقین تک پہنچا کہ یورپ تو درکنار، کوئی عرب ملک بھی فلسطین، شام یا ایران کے دفاع کے لئے کچھ بھی نہیں کرے گا، میں نے ـ جو پڑوس (مصر) میں موجود تھا، ـ فوری طور پر تل ابیب کے لئے ایک ٹکٹ خرید لی صرف “۴۸ گھنٹوں پر مشتمل سفر کے لئے” اور صرف ایک سادہ سے سبب کی بنا پر: اسرائیلی باشندوں کو قریب سے دیکھنا، ان کے ساتھ بات چیت کرنا، اور یہ سمجھنے کے لئے کہ وہ کیا اور کیسے سوچتے ہیں اور کیا چاہتے ہیں: دنیا کی نسبت ان کی نظر کیا ہے اور اس علاقے کے بارے میں ان کی رائے کیا ہے جس میں وہ رہتے ہیں، لڑتے ہیں اور قتل کرتے ہیں۔
چنانچہ میں قاہرہ سے امان اور وہاں سے اسرائیل [مقبوضہ فلسطین] کی طرف روانہ ہوا۔ ایک بار پھر بالکل اور شاندار اور دو منزلہ ریل گاڑی میں تل ابیب اور بیت المقدس کی طرف سفر کیا۔ اس سفر کے دوران میں نے کئی لوگوں سے بات چیت کی اور انہیں اکسایا کہ ان حالات کی تشریح کریں جن میں وہ زندگی بسر کررہے ہیں: اپنے سیاسی نظام کے بارے میں اور اس اپارتھائیڈ (Apartheid) کے بارے میں بات کریں، جبکہ ان کی اکثریت انتخابات میں شرکت کرکے اس امتیازی پالیسی کو نظر انداز کرتے ہیں؛ گو کہ تسلسل کے ساتھ اپنے نظام کے “جمہوری” پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
البتہ اسرائیل جس قدر کہ “زیادہ جمہوری” ہوگا، تو وہ فلسطینیوں سمیت پورے علاقے کے عرب باشندوں کے ساتھ ان کا سلوک اتنا ہی زیادہ شرمناک ہوجاتا ہے۔ اسرائیلی باشندے تسلسل کے ساتھ ایسی حکومتوں کو ووٹ دیتے ہیں جو کئی ملین انسانوں کو کیمپ میں قید کرلیتی ہیں۔ وہ ایسے لوگوں کو منتخب کرتے ہیں جو مشرق وسطی کے مختلف ممالک میں جنگوں اور عسکری تنازعات کو ہوا دیتے ہیں۔
اگر آپ حلب یا بیروت میں رہتے ہوں تو فطری طور پر اور بڑی سادگی سے شاید یہ تصور کریں کہ یہ تمام مسائل اور یہ دہشتیں اور تباہیاں اسرائیلی شہریوں کے “شر اور شیطان” ہونے کا نتیجہ ہیں؛ آپ سوچ لیں کہ یہ لوگ مٹھی بھر خون کے پیاسے کتے ہیں جنہیں ان کے شمالی امریکہ میں رہنے والے آقاؤں نے قید و بند سے رہا ہونے کی اجازت دی ہے۔
لیکن جب انسان اسرائیلیوں کے ساتھ رابطہ برقرار کرتا ہے، تو بہت جلد ـ بہت عجیب ہے ـ سمجھ لیتا ہے کہ مسئلہ صرف یہی نہیں ہے۔
زیادہ تر اسرائیل کسی حد تک پریشان اور حیرت زدہ اور کم گو ہیں۔ وہ اپنے اندر ڈوبے ہوئے ہیں۔ لگتا ہے کہ “وہ اپنے گرد و نواح کی دنیا کے لئے کسی بھی اہمیت کے قائل نہیں ہیں”، سب سے زیادہ مہلک چیز بےرحمی نہیں بلکہ ان کا لوگوں سے لا تعلقی، بے اعتنائی اور غرور ہے۔
لیکن یہ سب اس لئے نہیں ہے کہ ان میں سے اکثر یہودی ہیں بلکہ اس لئے ہے کہ وہ یورپی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اسرائیل نامی یہودی ریاست میں رہنے والے غیر یورپی یہودیوں کے ساتھ ـ جن کا تعلق مراکش، یمن، ایتھوپیا اور دوسرے ممالک سے ہے ـ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا یا اس سے بھی بد تر، سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
اسرائیل در حقیقت مشرق وسطی میں یورپیوں کی “دور افتادہ” چوکی ہے۔ یہاں رہنے والے اکثریتی باشندوں کا طرز فکر یورپی ہے۔ اگر آپ تل ابیب، حیفا اور حتی بئر شیبا اور بیت المقدس کے یہودی محلات کے غیر مذہبی علاقوں کے لوگوں سے بات چیت کریں تو ممکن ہے کہ آپ بھی اسی نتیجے پر پہنچیں۔
اسرائیل کے یورپی سفید فام باشندے “سیاسی شعور” کے لحاظ سے یورپیوں کے ہم پلہ ہیں، یعنی تقریبا صفر کے برابر۔ ممکن ہے کہ برطانیہ کے بیرونی فوجی اڈوں کی تعداد کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہو۔ برطانوی فوج کئی “منصوبوں” میں کردار ادا کررہا ہے؛ فوجی قبضے، بیرونی حکومتوں کی کایا پلٹ کی کوششیں وغیرہ۔ یہ “منصوبے” سالانہ کئی لاکھ بےگناہ انسانوں کو قتل کردیتے ہیں؛ لیکن ٹیٹ ماڈرن (Tate Modern) یا کوینٹ گارڈن (Covent Garden) کے اوپرا ہاؤس کی طرف جائیں یا حتی لندن کے بےشمار بدبو نائٹ کلبوں کی طرف جاؤ اور کوشش کریں کہ لوگوں کو ان کے ملک کے خونی ورثے کے بارے میں بات چیت پر آمادہ کریں، تو وہ آپ پر اور آپ کی باتوں پر ہنسیں گے یا آپ کا گریبان پکڑیں گے یا اصولا نہیں سمجھ سکیں گے کہ آپ کس چیز کے بارے میں بات کررہے ہيں، کیوں؟
اگر آپ یہی کام فرانس میں انجام دیں تو شاید ان ہی نتائج تک پہنچیں گے۔ فرانس افریقہ میں نواستعماریت کے منصوبے میں ملوث ہے۔ اور اس عمل کے نتیجے میں کروڑوں “پست انسان” نیست و نابود ہوجاتے ہیں۔ لیکن کتنے فرانسیسی جانتے ہیں؟ اور اگر جان لیں تو کتنی فرانسیسی اسے اہمیت دیتے ہیں، چہ جائے کہ وہ اپنے حکمرانوں کو ایسا کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کریں! پیلی جکیٹوں پر ایک نظر ڈال دیں: ان میں سے کتنے ایسے ہیں جو فرانس کی نوآیادیوں میں رہنے والی قوموں کے لئے بھی عدل و انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں؟
اسرائیلیوں کا طرز فکر اس طرز فکر سے بہت حد تک مشابہت رکھتا ہے۔
تل ابیب کو یہودی ریاست کے سے بڑے شہر کے طور پر پیش نظر رکھیں: یہ شہر روئے زمین کے امیرترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ یہاں کے ڈھانچے شمالی امریکہ اور برطانیہ سے بہتر ہیں۔ یا یہاں کے ثقافتی مراکز ـ منجملہ فن جدید کا عجائب گھر جو انجنیئر پرسٹن اسکاٹ کوہن (Preston Scott Cohen) کے ماہرانہ ہاتھ کا شہ پارہ ہے، تل ابیب میں سبز علاقے اور عوامی مقامات سب اس شہر کو دنیا کے بہترین شہروں کی سطح پر لاتے ہیں۔
لیکن کن افراد کے لئے؟ اور علاقے کے غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور عوام کے لئے کس قیمت پر؟ جلا وطن اور استحصال زدہ عوام کے لئے کس قیمت پر؟
یہ منظر کیا آپ کے لئے آشنا ہے؟ یورپ کے تمام عجائب گھروں، گرجا گھروں، پارکوں، سرکاری اسپتالوں اور یونیورسٹیوں کی طرح، جنہیں کانگو، انڈونیشیا، ہندوستان اور دوسرے ممالک کے عوام کی ہڈیوں، لاشوں اور غربت اور افلاس کے اوپر تعمیر کیا گیا ہے۔ فائدہ سب کا یورپ کو ملے مگر دوسرے ممالک کے استحصال شدہ اور غلامی پر مجبور انسانوں کی محنت کی قیمت پر اور دوسروں کے لٹے ہوئے وسائل کے ذریعے۔
اسی طرح کی باتیں جا کر میڈرڈ، برسلز، برلن، پیرس، ایمسٹرڈم، لیسبن یا لندن میں بھی کریں۔ یہ امکان بہت کم ہے کہ کوئی آپ کی باتیں سمجھ لے۔ حتی ممکن ہے کہ وہ آپ سے لڑ پڑیں اور آپ کو ٹیکسی یا شراب خانے سے باہر پھینک دیں۔ آپ کی توہین کریں یا حتی آپ پر حملہ کریں (مثال کے طور پر ایک بار لندن میں مجھے ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا)۔
اس سلسلے میں تل ابیب اور حیفا میں بھی بات کریں تو ایسے ہی نتائج برآمد ہونگے۔ شاید اتنے سخت نہ ہوں جتنے کے یورپ میں برآمد ہوا کرتے ہیں۔ (تل ابیب میں ان لوگوں کی تعداد کچھ زیادہ ہے جو اپنے اوپر بھی تنقید کرتے ہیں)، لیکن یہاں جو لوگ آپ کی مخالفت کرتے ہیں ان کا رد عمل زیادہ ناخوشایند اور کبھی تشدد آمیز ہو۔
پھر جب یہ لوگ [تل ابیب والے یا یورپ والے] بحث و جدل سے تھک جاتے ہیں تو تقریبا کسی شک کے بغیر، ہالوکاسٹ کے مسئلے کو پیش کریں گے۔ اور ہالوکاسٹ ان الفاظ میں سے ہے کہ جب زبان پر آتے ہیں تو اس کا مقصد اسرائیل پر ہونے والی تنقید کے سلسلے میں جاری بحث کا اختتام ہوتا ہے۔ یہ لفظ در حقیقت کسی بھی شخص کا منہ بند کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
اس کے بعد ہالوکاسٹ کا رابطہ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ سے یہودیوں کی مشرق وسطی ہجرت سے جوڑ دیا جائے گا اور آپ کو سننا پڑے گا: “لاکھوں یہودیوں کو قتل کیا گیا، چنانچہ انہیں مشرق وسطی میں نقل مکانی کرنے یا نقل مکانی دلانے کا حق تھا”۔
یہ ثبوت بہت انجانا اور طاقتور ہے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ مغربی معاشرہ بھی اسرائیلی معاشرے کی طرح فکری لحاظ سے اس قدر فرمانبردار اور “بزدل” ہوچکا ہے۔
ہالوکاسٹ کی طرف اشارے کو “کلام کا اختتام” نہیں ہونا چاہئے: یہ حقیقتا وہی نقطہ ہے جہاں سے بحث کو شروع ہونا چاہئے۔ یورپی (جرمنی اور جرمنی کے بعض یورپی اتحادی ممالک کے تعاون سے) یہودیوں، روم اور کمیونسٹوں کے خلاف ہالوکاسٹ کے مرتکب ہوئے تھے۔ کروڑوں انسان ناقابل تصور شقاوت اور سنگدلی اور نہایت خوفناک روشوں سے مارے گئے۔
لیکن اس کے بعد؟
برطانوی سامراج کی نہایت شرانگیز روش سے ان جرائم کے مرتکبین کو انعام و اکرام سے نوازا گیا اور پھر نئے متاثرین کو تلاش کیا گیا!
جرمنی کی تعمیر نو کا کام مکمل ہوا جبکہ فلسطینیوں کو (جو برطانوی انگریزوں کے خیال میں اصولی طور پر انسان نہیں سمجھے جاتے ہیں) ان لوگوں کے طور پر چنا گیا جنہیں یورپیوں کے جرائم کی قیمت ادا کرنا تھی۔
باواریا (Bavaria) کے پورے علاقے کو انعام کے طور پر یہودیوں کے حوالے کیوں نہيں کیا گیا؟ یہ علاقہ ہٹلر کی جنم بومی تھا؛ اس کے ابتدائی حامی بھی اسی علاقے میں رہتے تھے۔ باواریا وہ علاقہ تھا جس میں ہولناک قتل و غارت کے واقعات رونما ہوئے۔
باواریا، جرمنی اور مرکزی یورپ وہ علاقہ ہے جسے کروڑوں یہودی، نازیوں کے جنون کے آغاز سے پہلے، اپنا گھر سمجھتے تھے۔ بیسویں صدی کا سب سے بڑا قلمکار فراز کافکا (Franz Kafka) جو جرمن زبان میں لکھتا تھا، اپنے آپ کو چیک نژاد یہودی سمجھتا تھا۔
وہ سب مجھے ہرگز پسند نہیں ہے جو میں نے اسرائیل میں دیکھا اور سنا، بالکل ان ہی باتوں کی طرح جو میں ایمسٹرڈم، ہیمبرگ، پیرس یا میڈرڈ میں دیکھا یا سنتا ہوں، اور انہیں پسند نہیں کرتا ہوں۔ وہی نیکی کا ڈھونگ، وہی منافقت، ریاکاری، کبر و غرور اور وحشیانہ پن: “جاؤ اپنا کام کرو، ورنہ تیری ٹانگیں توڑ دوں گا۔ ہم تمہارے شہروں پر بمباری کرسکتے ہیں، تمہاری زمینوں کو چُرا سکتے ہیں، لیکن اگر تم نے ہمارے اوپر گولی چلائی تو ہم تم پر ایسی بمباری کریں گے کہ تم پتھر کے زمانے میں پلٹ جاؤ۔ کیوں؟ بہت سادہ سی بات ہے، کیونکہ ہم ایسا کرسکتے ہیں۔ کیونکہ ہم اس عظیم مغربی طاقت کا حصہ ہیں۔ کیونکہ اگر کہیں تم سے اپنے دفاع کا تصور بھی سرزد ہوا تو تو جانتا ہے کہ ہم کیا کریں گے! اس لئے کہ تم لوگ خوف و دہشت کے سائے میں زندگی بسر کرنے اور اطاعت کرنے پر مجبور ہو، اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ “ہمارے عوام دنیا کے واحد عوام ہیں جو اہمیت رکھتے ہیں”۔
جی ہاں! نوآبادیوں کو اسی انداز سے قابو میں رکھا جاتا ہے، ابتداء یورپیوں کے ذریعے اور بعد میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ذریعے۔ اسرائیل نے بھی اس روش کو سیکھ لیا ہے اور بہت تیزی سے بھی سیکھ لیا ہے، یہ وہ قوم ہے جو بہت جلد قربان ہونے والی قوم سے قربان کرنے والی قوم میں بدل چکی ہے۔
اس سلسلے میں ہر ملک کے قوانین بالکل واضح ہیں: صرف اس لئے کہ آپ کے رشتہ داروں اور اہل خانہ بےرحمانہ انداز سے قتل ہوئے ہیں، تو آپ کو یہ حق نہیں ملتا کہ لوگوں کو مارو پیٹو، ان کے اموال کو چوری کرو اور لوگوں کی بالکل مختلف جماعتوں کا قتل عام کرو۔
صرف اس بنا پر کہ تم نسل پرستی کا نشانہ بنے ہو، اس بات کا جواز فراہم نہیں کرتا کہ دوسروں کے خلاف استعمارگرانہ رویہ اپناؤ۔
جی ہاں! میں ہمیشہ اسرائیل کے ڈھانچوں کو دیکھ کر متاثر ہوا ہوں لیکن یہ ڈھانچے ان لوگوں کے لئے نہیں ہیں جو ان سے فائدہ اٹھانے کے مستحق ہیں۔ جنوبی افریقہ نے اپارتھائیڈ کے دور میں دنیا کی سب سے بڑی شاہراہوں کا افتتاح کیا لیکن سفید فاموں کے لئے؛ جبکہ جنوبی افریقہ کے دوسرے لوگ جھونپڑیوں میں زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ اسرائیل بھی بالکل وہی کچھ کررہا ہے۔
حالات کو بد سے بدتر کرنے کی غرض سے اسرائیلی وزیر اعظم جنگی مجرم کی طرح برتاؤ کرتا ہے۔ اور اس کے اپنے عوام نے اس کو انعام و اکرام سے نوازتے ہوئے اس کو ایک بار پھر منتخب کیا ہے۔
میں اجتماعی گناہ پر یقین رکھتا ہوں۔ ایسے عوام کی لاپروائی جن کے نام پر چوری اور قتل و غارت انجام پاتا ہے اور وہ اسے برداشت کرتے ہیں، یوں یہ جرم و ظلم بجائے خود ایک ہولناک جرم اور ظلم میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
ہولناک اور طویل صدیوں سے یورپی نسل پرستوں اور جنونیوں نے یہودیوں کو تشدد، تحقیر و تذلیل اور قتل کا نشانہ بنایا۔ اب اسرائیلی یہودی ـ جو یورپی نژاد ہیں ـ بین الاقوامیت کے دھارے اور ترقی پسند قوتوں میں شامل ہونے کے بجائے، اپنے تشخص کو تبدیل کرچکے ہیں اور فیصلہ کن انداز سے جابر اور متشدد استعماریوں کی صف میں شامل ہوچکے ہیں۔
اب اسرائیلی، اس لئے نہیں کہ یہودی ہیں بلکہ اس لئے کہ یورپی ہیں، انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں۔