(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) امریکہ نے کہا ہے کہ غرب اردن میں اسرائیل کی یہودی آبادیاں بین القوامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہیں، امریکہ اسرائیل کے موقف کی حمایت کرتا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ امریکہ مقبوضہ غربِ اردن میں اسرائیلی آبادیوں کو بین الاقوامی قوانین کے خلاف تصور نہیں کرتا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یہ موقف سابق امریکی صدر اوباما کی رائے کے برعکس ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ غربِ اردن کی حیثیت کا فیصلہ کرنا اسرائیلیوں اور فلسطینیوں پر منحصر ہے۔اسرائیل نے امریکی موقف میں اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا ہے۔ اسرائیل نے غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں 140 یہودی بستیاں قائم کی ہیں جنھیں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی کہا جاتا ہے جبکہ اسرائیل اس سے متفق نہیں ہے۔ادھر فلسطینی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ امریکی فیصلہ بین الاقوامی قوانین کے بالکل منافی ہے۔ فلسطینی چاہتے ہیں کہ غرب اردن کا تمام علاقہ ایک دن ان کی ریاست کا حصہ ہوگا۔
غرب اردن اور اس میں بنائی گئی یہودی بستیوں کی حیثیت کا فیصلہ اسرائیلی فلسطینی تنازعہ کی تہہ تک جاتا ہے اور اسے امن عمل میں ایک اہم رکاوٹ مانا جاتا ہے۔اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے دوران غرب اردن، مشرقی یروشلم، غزہ اور شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس نے مشرقی یروشلم کو تو سنہ 1980 اور گولان کی پہاڑیوں کو سنہ 1981 میں عملاً اپنا حصہ بنا لیا تھا، تاہم اس اقدام کو بین الاقوامی سطح پر قبول نہیں کیا گیا تھا۔ فلسطینیوں کا مطالبہ ہے کہ ان تمام بستیوں کی ختم کیا جائے کیونکہ ان کی ایک ایسے خطے پر موجودگی جس پر وہ دعوے دار ہیں مستقبل کی آزاد فلسطینی ریاست کے خواب کو پورا نہیں ہونے دے گی۔