(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) امریکا کی اوہائیو یونیورسٹی کے ایک محقق جان کویگلی، اسرائیل فلسطین تنازعہ پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں- انکی 2016 میں شائع شدہ کتاب
The International diplomacy of the Founders of Israel: Deception at the United Nations in the Quest for Palestine
(اس عنوان کا ترجمہ یہ کیا جا سکتا ہے کہ "اسرائیل کے بانیوں کی عالمی ڈپلومیسی: فلسطین کو حاصل کرنے کے لئے اقوام متحدہ کو کس طرح دھوکہ دیا گیا-")-
کتاب میں مصنف کویگلی، صیہونی لیڈران کی اس ڈپلومیسی پر بحث کرتے ہیں جسکے ذریعے اسرائیلی ریاست کا خواب دیکھنے والے یورپ کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوئے کہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام میں خود یورپ کا فائدہ ہے- آج بھی دوسرے شبعوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی ڈپلومیسی بہت کامیاب ہے اور اسی لئے فلسطینیوں پر تمام مظالم کے باوجود اسرائیل اور اسکے حواری دنیا بھر میں یہ واویلا کرتے ہیں کہ ‘اسرائیل کو اپنی بقا کا حق ہے-‘ حالیہ تنازعہ میں امریکی صدر جو بائیڈن نے یہی بیان دیا-
یہ بھی پڑھیے
ہم اکثر یہ جملے سنتے ہیں کہ ‘اسرائیل کو قائم رہنے کا حق ہے’ اور ‘اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے’ یہ دو جملے اتنے تواتر کے ساتھ بولے جاتے ہیں کہ خود ہمارے دانشور حضرات ان جملوں سے موم ہو جاتے ہیں اور واہ ہمیں یقین دلانے لگتے ہیں کہ اسرائیل ایک حقیقت ہے اور ہمارے اسے ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا (کہنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بلا تامل ہمیں اپنے قومی مفاد میں اسے تسلیم کر لینا چاہیے)-
یہاں یہ بات فراموش کر دی جاتی ہے کہ پچھلے بہتر سال میں اسرائیل کی بقا کا حق مسلسل فلسطینیوں سے انکی بقا کا حق چھین رہا ہے- ہم اپنے پچھلے مضمون میں اس امر پر مختصراً روشنی ڈال چکے ہیں کہ اسرائیل کے قیام کے بعد پچھلے بہتر سال میں مسلسل نہتے فلسطینیوں سے انکی بقا کا حق چھین کر انہیں اوپن ایئر کنسنٹریشن کیمپس میں محصور کر دیا گیا ہے۔
اسکے باوجود ہمارے ہاں بعض بظاھر سمجھدار حضرات اسرائیلی پروپیگنڈے کا لاؤڈ اسپیکر بن کر شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا ثبوت دینے کی کوشش کرتے ہیں- بعض ؛اوگ اسرائیل کی حمایت محض اس لئے کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ پرانے بیانیہ سے بور ہو گئے ہیں اور اب کوئی نیا بیانیہ سامنے لانا چاہتے ہیں جسکے لئے تاریخی حقائق کو نظر انداز کرنا ضروری ہے۔
اس حوالے سے اتنے بودے دلائل سامنے آتے ہیں کہ سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے- ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جب عربوں نے اسے تسلیم کر لیا تو ہمیں بھی کر لینا چاہیے- راقم کے نزدیک یہ کوئی دلیل نہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ہر ملک کو اپنی اقدار، عوام کی خواھشات، فائدے اور نقصان کو دیکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی مرتب کرنی چاہیے- ایک اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس سے پاکستان اور اسرائیل سے تجارت کھل جائے گی اور ہمیں ایکسپورٹس کے لئے نئی مارکیٹ ملے گی- عرض یہ ہے کہ اسرائیل کی کل آبادی دس ملین سے بھی کم ہے۔
اس میں فلسطینی اتھارٹی میں محصور فلسطینیوں کی آبادی شامل کر لی جائے تو بھی کل ملا کر آبادی مشکل سے پندرہ ملین سے بھی کم بنتی ہے- مان لیتے ہیں کہ اس معمولی سی مارکیٹ سے ہماری معیشت ایک اونچی اڑان اڑنے میں کامیاب ہو جائے گی-
لیکن یہاں یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس سے ہزار گنا بڑی چین کی ڈیڑھ بلین کی مارکیٹ جو پچھلے سترسال سے ہماری منتظر ہے، اس میں ہم نے کتنی کامیابی حاصل کی ہے؟ شاہراہ قراقرم پر پاک چین بارڈر پر ٹرکس پاکستان میں چینی پروڈکٹس سے لدے ہوئے داخل توہوتے ہیں لیکن جاتے خالی ہیں۔
آپکی معیشت محض تعلقات سے نہیں بدلتی بلکہ اسکے پیچھے تجارت بڑھانے کے لئے سیاسی عزم، ٹارگٹ مارکیٹ میں پروڈکٹس لانچ کرنے سے پیشتر کثیر تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے جسکی ہم ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے- اسکے بعد بھی ٹریڈ ڈپلومیسی کی ضرورت ہوتی ہے-
چین جب آزاد ہوا تو اسکا حال پاکستان سے بہت زیادہ ابتر تھا- انکے پاس اپنی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بھی ذرائع نہیں تھے لیکن پچھلے ستر سال میں وہ سیاسی عزم، تحقیق، پلاننگ اور انتھک محنت سے کہاں سے کہاں پہنچ گئے؟ ہم صرف ان تعلقات کو استعمال کر کہ انہیں مارکیٹ ہی دے رہے ہیں-
یہ بھی پڑھیے
کاش کبھی کسی پاکستانی یونیورسٹی میں یہ تحقیق ہو کہ چین کی معاشی ترقی میں پاکستانی مارکیٹ کا کیا کردار ہے؟ اور ایسا ہم نے اپنی کتنی صنعتوں کی قربانی دیکر کیا ہے- خیراس وقت بات اسرائیل کی ہو رہی تھی-
ایک اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اسرائیل ٹیکنولوجی کے لحاظ سے بہت آگے ہے، وہ ہمیں ٹیکنولوجی ٹرانسفر کرے گا، جس سے ہمیں ترقی کرنے میں مدد ملے گی۔
ان لوگوں کے لئے عرض ہے کہ دنیا میں ٹیکنولوجی، تحقیق اورعلم کے حوالے سے سب سے بڑا نام آج بھی امریکا کا ہے، جس کے ہم پاکستان کے قیام کے آغاز سے سرکاری طور پر اتحادی رہے ہیں- امریکا سے ہم کتنی ٹیکنولوجی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے؟ ہم سے کہیں زیادہ اس شعبے میں خود چین اور بھارت نے کامیابی حاصل کی جنہوں نے مغربی تعلیم اور تحقیق کی اہمیت کو سمجھا اور لاکھوں کی تعداد میں طلبہ کو امریکا بھیجا تاکہ وہ امریکا سے کچھ سیکھ سکیں-
ہمارے ہاں آج تک یہ بحث ہی ختم نہیں ہوئی کہ مغربی تعلیم کے بد اثرات سے کہیں ہم اپنی اقدار تو نہیں کھو دیں گے اور ہماری نسلیں تو تباہ نہیں ہو جائیں گی۔
ٹیکنولوجی کے میدان میں دوسرا نمبر اور کچھ لوگوں کے نزدیک پہلا نمبر، تیزی سے ابھرتے ہوئے چین کا ہے، جس سے ہماری دوستی ہمالہ سے اونچی اور سمندر سے گہری ہے- اس چین سے ہم نے کتنی ٹیکنولوجی حاصل کر لی جو اسرائیل سے منتقل کریں گے؟ ان دانشوروں کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل تیار بیٹھا پاکستان کو ٹیکنولوجی منتقل کر کہ طاقتور بنانے کے لئے- پھر اسرائیل نے ان عرب ملکوں میں کتنی ٹیکنولوجی منتقل کی جنہوں نے اسے تسلیم کر لیا ہے-
ان میں مصر(1978)، اردن (1994)، اور ابھی حال ہی میں کچھ دوسرے مسلم ملک بھی شامل ہیں- جاننے والے جانتے ہیں کہ دنیائے عرب میں مصر کی غربت فقید المثال ہے-
اسکے برعکس ایران ہے جو 1948 میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والا دوسرا مسلم ملک تھا لیکن 1979 کے انقلاب بعد اس نے اسرائیل سے تعلقات منقطع کر لئے- آج صورتحال یہ ہے کہ پوری مسلم دنیا میں اسرائیل اگر کسی کی عسکری طاقت اور ہتھیاروں کی تیاری سے پریشان ہے تو وہ ایران ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ ایران کے انقلابی لیڈران مسلسل اسرائیل کے خلاف بیانات دیتے رہے اور فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھاتے رہے- اسکے باوجود ایران عراق جنگ کے دوران ایران کو ہتھیاروں کی ضرورت پڑی تو اسرائیل سے ہی خریدے گئے- یعنی ڈپلومیسی بہتر ہو تو وقت پڑنے پر دشمن سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے- ہم یاد دلا دیں کہ یہ وہ وقت تھا جب تہران میں امریکی سفارت خانے کا محاصرہ تھا اور کثیر تعداد میں امریکی سفارت کار اور عملہ محصور تھا-
اسکے برعکس مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے دوران امریکا اور چین کے اتحادی ہم تھے- اب رچرڈ نکسن اور ہںری کسنجر کی رسمی اور غیر رسمی میٹنگز کی ٹیپس ڈی کلاسیفائی ہو چکی ہیں- نکسن انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کو اور اندرا گاندھی کے مقابلے میں صدر ایوب اور یحییٰ کو بہت پسند کرتا تھا- اسکے باوجود انڈیا کی سفارت کاری کی کامیابی کہ امریکا کا اتحادی نہ ہوتے ہوئے بھی نہ صرف انھوں نے مشرقی پاکستان کے پناہ گزینوں کے نام پر امریکا سے سو ملین ڈالر امداد حاصل کی بلکہ امریکی کانگریس کے ذریعے پاکستان کو ہتھیاروں کی ترسیل بھی رکوا دی۔
دوسری طرف غیر جانبدار ممالک کے گروپ کا ممبر ہوتے ہوئے بھی اندرا گاندھی اگست 1979 میں روس سے ہتھیاروں کا ایک بڑا معاہدہ کرنے میں بھی کامیاب ہو گئیں- پاکستان چین اور امریکا کا اتحادی ہوتے ہوئے بھی ان سے کچھ حاصل نہیں کر سکا-
اس آپریشن کے دوران صورتحال یہ تھی کہ دنیا بھر کے ممالک نیشن اسٹیٹ کے تصور کے تحت ملکی خود مختاری sovereignty کے اصول کے قائل تھے- اس لئے پاکستان کے خلاف بھارت کی سفارتی کوششوں کے جواب میں بھارت سے ہمدردی رکھنے کے باوجود کسی ملک نے کھل کر بھارت کی پاکستان میں در اندازی کی حمایت نہیں کی۔
لیکن بھارت نے اس سے ہار نہ مانی، بلکہ وہ مشرقی پاکستان کے پناہ گزینوں کو بہانہ بنا کر اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا رونا رو رو کر حکمرانوں کو نہیں تو نوبل پرائز حاصل کرنے والے سائنس دانوں آرٹسٹس انٹلیکچوئل حضرات سے مشرقی پاکستانی آبادی کے حق میں بیانات لینے میں کامیاب ہو گئے۔
بھارت نے فنکاروں تک کو پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کیا- معروف پاپ سنگر جارج ہیریسن کے ؛بنگلادیش’ نامی کنسرٹ پر راقم کا تفصیلی فیچر موجود ہے جس سے بھارت نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے میں کثیر فائدے حاصل کے اورامریکی حکومت کو بھی دباؤ میں لیا گیا-
بھارت نے اپنی عالمی ڈپلومیسی کے بل پر دنیا بھر میں یہ پروپیگنڈا کیا کہ پاکستان مشرقی پاکستان میں جینو سائیڈ کا مرتکب ہو رہا ہے- جینو سائیڈ (کسی قوم کی ارادتاً نسل کشی) ایک قانونی اور ٹیکنکل اصطلاح ہے جسے بین الاقوامی قانون کے تحت انسانیت کے خلاف سب سے بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے۔
اس لفظ کا استعمال میں بہت احتیاط برتی جاتی ہے اور اقوام متحدہ کے ادارے عام طور پر کسی قوم پر اسکے الزام سے قبل اسکی وسیع تحقیقات کرواتے ہیں- لیکن انڈیا آپریشن کے شروع سے پاکستان پر الزام لگاتا رہا کہ پاکستان بنگالیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ ہمارے ہاں کسی نے اس پروپیگنڈے کا جواب دینے کی کوشش نہیں کی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسکی اہلیت ہی نہ تھی-
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی-
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی ملک سے تعلقات رکھنا، اسکا اتحادی بننا اور بات ہے اور ان تعلقات کو اپنے حق میں استعمال کرنا، اپنی معیشت بہتر بنانے کے لئے استعمال کرنا یا اس سے ٹیکنولوجی یا ہتھیار حاصل کرنا ایک با لکل الگ امر- موخرالذکر کے لئے آپکو ڈپلومیسی کے محاذ پر جنگ لڑنی پڑتی ہے۔
یہاں ہمیں تھوڑا سا ٹھنڈے دل و دماغ سے اس بات کا بھی تجزیہ کرنا ہو گا کہ کیا یہود دنیا کے لاڈلے ہیں یا تھے کہ دنیا نے انہیں پلیٹ میں رکھ کر فلسطین پیش کر دیا؟ یا انہوں نےخود کوشش کر کہ اپنے بل بوتے پر طاقت پکڑی اور دنیا میں ایک حیثیت حاصل کی اور اپنی ڈپلومیسی کے بل بوتے پر دنیا کو جھکایا؟ دنیا کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ انکا ساتھ دے- کیا اس منظر نامے میں ہمارے سیکھنے کے لئے کچھ ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ جس یورپ کو صیہونیوں نے اسرائیل کے قیام کے لئے استعمال کیا وہاں انکے ساتھ بد ترین زیادتیاں ہوتی تھیں- ان ممالک میں جرمنی اور روس سر فہرست ہیں لیکن برطانیہ اور فرانس میں بھی انکے خلاف تعصب بلکہ شدید نسل پرستی کے جذبات تھے۔
شاید ویسے ہی جیسے آج مسلمانوں کے لئے ہیں- ٩/١١ کے بعد مسلمان اب دنیا کے نئے ولن بن گئے ہیں- لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا- اس سے قبل کمیونسٹ عالمی ولن تھے، اس سے قبل جرمن، اور اس سے قبل شاید خود یہود-
پچھلے دنوں ٹویٹر پر یہ ہیش ٹیگ بہت مقبول ہوا کہ Muslims Are The New Jews یعنی آج کی دنیا کے ولن اب یہود نہیں بلکہ مسلمان ہیں۔
مسلمان اپنی ایک سو اسی کروڑ آبادی اور دنیا کے ہر خطے میں موجودگی کے باوجود جس صورت حال کا شکار ہیں، اس سے نکلنے کی اسٹرٹیجی بنانے کے لئے، ہمیں ان قوموں سے بھی سیکھنے کی ضرورت ہے جو ایک دور میں عالمی ولن رہی ہیں- یہود کا نمبر ان قوموں میں سب سے آگے آتا ہے۔
گو مسلم دنیا میں کبھی یہود کو نسل پرستی یا مظالم کا نشانہ نہیں بنایا گیا لیکن یورپ میں انکے خلاف قرون وسطیٰ سے ہی شدید نفرت کے جذبات پائے جاتے تھے- نشاط ثانیہ کے ادوار میں بھی ان میں کمی نہیں آئ- انکے خلاف وقفے وقفے سے پوگروم یعنی یہود کش فسادات ہوتے- جیسے آج برما اور انڈیا کے مسلموں کے خلاف ہوتے ہیں۔
انہیں فسادات سے بچنے کے لئے اس قوم کی قیادت کرنے والوں نے بالاخر یہ فیصلہ کیا کہ جب تک ایک الگ ریاست کا قیام عمل میں نہیں آتا، یہودی قوم کو ان مظالم سے نجات نہیں ملے گی-
لیکن اس ریاست کے قیام کے لئے اس قوم نے ڈپلومیسی کی طاقت استعمال کر کہ دنیا کو کس طرح جھکایا، یہ بڑی دلچسپ داستان ہے- آج کل جان کویگلی کی میرے مطالعہ ہے- کتاب میں مصنف کویگلی، صیہونی لیڈران کی اس ڈپلومیسی پر بحث کرتے ہیں جسکے ذریعے اسرائیلی ریاست کا خواب دیکھنے والے یورپ کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوئے کہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام میں خود یورپ کا فائدہ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل کے قیام کی مخالفت خود یہود کے مختلف فرقوں میں اسکے قیام سے پیشتر موجود تھی- خود فلسطین میں رہنے والے عرب یہودیوں بلکہ مذہبی جذبات کی وجہ سے وہاں منتقل ہونے والے یہودیوں نے بھی اسکی مخا لفت کی-
خود یوروپی یہودی بھی فلسطین جیسی غیر ترقی یافتہ خطے میں منتقل ہونے کے بجائے یورپ میں ہی حقوق چاہتے تھے-اور اگر انھیں کہیں منتقل ہونا تھا تو امریکا انکے لئے بہترین انتخاب تھا جس نے روس سے بھاگے ہوئے دو ملین یہود میں سے لاکھوں کوپناہ ہی نہیں شہریت بھی دی تھی-
لیکن اسکے باوجود اسرائیل کا خواب دیکھنے والے مغربی حکمرانوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ دنیا کے تمام یہودیوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور یورپی یہودیوں کے مسئلے کا حل فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام ہے- کویگلی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا قیام در اصل ڈپلومیسی کی جیت ہے۔
ڈپلومیسی کی اس جیت نے یورپ میں مبغوض اشکنازی یہودیوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کو جو خود یہود کی آبادی کا ایک قلیل حصہ ہے، کے لئے ایک ناممکن امر کو ممکن کر دیا، تو کیا ہم مسلمانوں کو ڈپلومیسی کے اس محاذ کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں کرنا چاہئے؟ یہ بھی یاد رہی کہ ڈپلومیسی کی اہلیت صرف فلسطین کے معاملے میں نہیں بلکہ امت کو در پیش لاتعداد پیچیدہ مسائل اور تنازعات کے حل کے لئے اہم ہے کہ یہ بھی دنیا میں بقا کی ایک اہم ضرورت رہی ہے-
اقبال سو سال پہلے کہہ گئے
سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
تحریر: تزئین حسن