(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) تیس سالوں سے اسرائیل کے مختلف جیلوں میں زندگی گزارنےوالے فلسطینی بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کردئے گئےہیں ، فلسطینی قیدیوں کو اپنے گھروالوں سے بھی ملنے کی اجازت نہیں ۔
مقبوضہ بیت المقدس کے شہر الخیل سے تعلق رکھنے والے موسیٰ صوی کی اہلیہ ام سیاف کا کہنا ہے کہ 1988ء کو شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ کے بعد سے ان کے شوہر کوانتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور گزشتہ تیس سالوں سے وہ اسرائیل کی مختلف جیلوں میں آزادی کی جدو جہد کی قیمت چکا رہے ہیں ۔
انکاکہنا تھا کہ ‘میرے بچے مجھ سے ہر روز یہ استفسار کرتے ہیں کہ ہمارے والد کہاں ہیں اور ہم ان سے کیوں نہیں مل سکتے؟، میں انہیں ہر بار یہ کہہ کر خاموش کرا دیتی ہوں کہ وہ جلد ہی تمہارے درمیان ہوں گے۔ یہ کم سن ذہن کیا جانیں کہ ان کے والد صہیونی ریاست کے زندانوں میں کس طرح کے ظلم وبربریت کا سامنا کررہےہیں۔
موسیٰ صوی کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ہماری شادی کو دس سال گزر گئے ہیں جس میں سے ان کے شوہر نے 7 سال اسرائیلی قید میں گزار دئے ہیں ۔
ایک سوال کے جواب میں ام سیاف نے کہا کہ کچھ عرصہ تک ہمیں جیل میں ملاقات کی اجازت تھی مگر اب طرح طرح کی پابندیوں کا سامنا ہے حتیٰ کہ موسیٰ صوی کو اپنے بچوں سے بھی ملنے کی اجازت نہیں ہے جو انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہیں تاہم صیہونی ریاست کی جانب سے فلسطینیوں پر انسانی حقوق عائد نہیں ہوتے ہیں ۔
واضح رہے کہ اسرائیلی زندانوں میں 6500 فلسطینی پابندسلاسل ہیں، ان میں سیکڑوں فلسطینیوں میں سے انتظامی حراست کے تحت قید ہیں۔ اڑھائی سو بچے اور پچاس کے قریب خواتین پابند سلاسل ہیں اور ڈیڑھ ہزار فلسطینی مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔