یروشلم(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)جو چیز قارئین کو اس کتاب کے مطالعہ کے لیے ترغیب دلاتی ہے وہ یہ ہے کہ “میٹی گولن” ایک متعصب اسرائیلی یہودی ہے اور اس کے برخلاف جو اکثر لوگ تصور کرتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کے یہودیوں کے باہمی تعلقات بہت اچھے ہیں یا دوسرے لفظوں میں ان ملکوں کے روابط جیسا کہ میڈیا دکھاتا ہے اندرونی طور پر بھی ویسے ہی دوستانہ ہیں، اس کتاب میں ان کے درمیان پائی جانے والی دراڑوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔
یہ کتاب ” جو کچھ اسرائیلی امریکی یہودیوں کے بارے میں سوچتے ہیں” (Kesef temurat dam= with Friends like you: what Israeilis really think about American Jews) ایک اسرائیل مولف “میٹی گولن” جو اسرائیل کے ایک معروف نامہ نگار ہیں اور “ہاآرتض” اور “گلوبس” جیسے اخبارات میں چیف ایڈیٹر کی حثیت سے کام کر چکے ہیں نیز کینیڈا میں اسرائیلی سفارت میں بھی امور عامہ کے عہدہ پر سرگرمیاں انجام دے چکے ہیں، کی تصنیف ہے۔ ان کی ایک کتاب “ہنری کسینجر کے خفیہ مذاکرات” بھی کافی معروف ہوئی جسے کافی سنسر کے بعد اسرائیل میں منظر عام پر لانے کی اجازت ملی۔
جو چیز قارئین کو اس کتاب کے مطالعہ کے لیے ترغیب دلاتی ہے وہ یہ ہے کہ “میٹی گولن” ایک متعصب اسرائیلی یہودی ہے اور اس کے برخلاف جو اکثر لوگ تصور کرتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کے یہودیوں کے باہمی تعلقات بہت اچھے ہیں یا دوسرے لفظوں میں ان ملکوں کے روابط جیسا کہ میڈیا دکھاتا ہے اندرونی طور پر بھی ویسے ہی دوستانہ ہیں، اس کتاب میں ان کے درمیان پائی جانے والی دراڑوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ در حقیقت اس کتاب کی خوبی ہی یہی ہے کہ اس میں امریکہ اور اسرائیل کے دو یہودی معاشروں کا موازنہ اور مقایسہ کیا گیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان میں کون اصل ہیں اور کون فرع؟۔
یہ کتاب چار حصوں اور دو مقدموں پر مشتمل ہے۔ اور چونکہ کتاب کا طرز تحریر گفتگو محور ہے لہذا گولن اس کے مقدمے میں کتاب کی تصنیف کی کیفیت کو بیان کرتے ہیں۔ قصہ یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ گولن قدس شہر کے ایک ہوٹل “ملک داوود” میں ایک امریکی یہودی خاخام (ربی) “الی ویزل” جو سخت ہولوکاسٹ کے حامی ہوتے ہیں سے ملاقات کرتے ہیں اور موجودہ کتاب ان دو شخصیات کی گفتگو کا ماحصل ہے۔ اس گفتگو کے بارے میں جو اہم نکتہ قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ دونوں افراد اپنا نام بدل کر ایک دوسرے کو پہچنوانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے اصلی نام سے ایک دوسرے کو آگاہ نہیں کرتے گولان اپنا نام ‘اسرائیل’ اور ویزل اپنا نام ‘یہودا’ بتاتے ہیں۔
پہلا حصہ: دشمن کون ہے؟
اس حصے کے ابتدا میں اسرائیل کے حامی امریکی یہودیوں کی سرگرمیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو اسرائیل کو مالی امداد پہنچاتے ہیں اور حتیٰ اسرائیلی مقررین کی تقریروں کو سننے کے لیے اسرائیل تک جاتے ہیں۔ دوسری طرف سے اسرائیلی یہودیوں کی مشکلات جیسے ان کی ہجرت کا مسئلہ، فری فوجی سروس، ماہانہ درآمد، ٹیکس کی ادائیگی اور سکیورٹی وغیرہ جیسے مسائل کی وضاحت کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ امریکی اور اسرائیلی یہودیوں کی زندگیوں میں پائے جانے والے اختلافات کی منظر کشی کریں۔
گولن اپنی گفتگو میں یہودا کو دشمن خطاب کرتے ہیں اور اس کی وجوہات امریکی تنقید، اسرائیل کے اندرونی اور بیرونی امور میں دخالت اور اس کے لیے ‘کیا کرنا چاہیے’ اور ‘کیا نہیں کرنا چاہیے’ کو متعین کرنا، پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ بین الاقوامی سطح پر خود کو بڑا دکھانے کے لیے اسرائیل کی نسبت دوپہلو کردار پیش کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گولن یہودا پر اعتراض کرتے ہوئے جنگوں کے دوران اسرائیلی معاشرے کو پیش آنے والی مشکلات پر آنسو بہاتےہیں اور امریکی یہودیوں کی عیش و عشرت والی زندگی پر حسرت کھاتے ہیں۔
دوسرا حصہ؛ پیسے کی مشین
“پیسے کی مشین” وہ عنوان ہے جس میں امریکہ کی یہودی فلاحی تنظیموں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ ان تنظیموں کی ذمہ داری اسرائیل کے لیے صرف مالی امداد کی فراہمی ہے۔ گولن نے ان فلاحی تنظیموں کی مذمت کرتے ہوئے ان تنظیموں پر الزام عائد کیا ہے کہ یہ اسرائیل کے داخلی امور میں مداخلت کرتی ہیں اور اس سے اپنے مفاد کے لیے فائدہ اٹھاتی ہیں۔
گولن کا کہنا ہے کہ اس امداد کا ایک اہم حصہ اسرائیل کو نہیں ملتا بطور مثال ۱۹۸۹ میں ۷۵۰ ملین ڈالر اسرائیل کے نام پر اکٹھا ہوئے جس میں سے صرف ۲۴۴ ملین ڈالر اسرائیل تک پہنچے۔ نیز اس گفتگو میں تنطیم (UJA) اور اس کے ذریعے اکٹھا کی جانے والی امداد اور اسرائیل میں اس کے نفوذ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ گولن یہودا کو طعنہ دیتے ہوئے کہتے ہیں امریکی یہودیوں میں صرف ایک تہائی لوگ ہمیشہ اسرائیل کی مدد کرتے ہیں اور باقی یا بالکل مدد نہیں کرتے یا اگر کرتے ہیں تو اس سے ان کے اپنے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ وہ “والٹر اٹنبرگ، جک لینسکی، اور میلٹن پٹری” کو بطور مثال پیش کرتے ہیں جو کئی کئی ملین ڈالر امریکی اداروں کی امداد کرتے ہیں لیکن اسرائیل کی نہیں۔
تیسرا حصہ؛ امریکی یہودیوں کے لیے ناقابل بیان انتخاب
اس حصے میں یہودی تشخص اور یہودی روایتوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہودا اپنی گفتگو میں کوشش کرتے ہیں کہ یہودیت کو قدیمی روایت سے گرہ لگائیں لیکن گولن مختلف مثالوں کے ذریعے ان کے اس دعوے کو رد کرتے ہیں اور کچھ عوامل جیسے دنیا میں پائی جانے والی سام دشمنی اور یہودیوں کی مظلوم نمائی کی بنا پر کوشش کرتے ہیں یہودیت کو روایت کے تابع نہ ماننے کا ثبوت پیش کریں۔
گولن کہتے ہیں کہ امریکی یہودی، یہودی شریعت کی نسبت مفاد پرستانہ دید رکھتے ہیں جب ان کا مفاد پورا ہو جاتا ہے تو وہ دین و شریعت کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔
چوتھا حصہ؛ خاموشی اور دھوکے کی سازش
آخری حصے میں گولن واضح طور پر بیان کرتے ہیں کہ امریکی یہودی اور غیر یہودی اسرائیل میں سکونت اختیار کرنے میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتے۔ جبکہ وہ اسرائیل ہجرت کر کے بہت سارے اندرونی حالات میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ گولن صرف اسی چیز کو ہی مشکل نہیں سمجھتے بلکہ قائل ہیں کہ یہودا اور ان کے جیسے دیگر افراد امریکہ میں یہودیوں کی ہجرت کے شرائط فراہم کر کے اسرائیل کے حق میں سب سے بڑا ظلم کر رہے ہیں۔
کتاب کے آخر میں ان دو افراد کی گفتگو اس موضوع پر ختم ہوتی ہے کہ گولن یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ امریکی یہودی اسرائیل میں ہجرت کے حامی ہیں۔ وہ امریکی یہودیوں کی اسرائیل کی نسبت خیانت کی منظر کشی کرتے ہوئے مختلف مثالیں پیش کرتے ہیں جو قابل توجہ اور پڑھنے کے لائق ہیں۔