مقبوضہ بیت المقدس (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو آئندہ پارلیمانی انتخابات میں اپنی ’’لیکوڈ‘‘ پارٹی کے لیے 40 نشستوں کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان کی پارٹی اس وقت پارلیمنٹ میں 30 نشستیں رکھتی ہے۔ یاد رہے کہ نیتن یاہو سرکاری طور پر بدعنوانی کے مقدمات میں مشتبہ قرار دیے جا چکے ہیں۔
چند روز قبل مذکورہ الزام کے سرکاری طور پر عائد کیے جانے پر اسرائیلی وزیراعظم نے میڈیا اور عدلیہ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے ایک سازش اور گھمسان کی مہم قرار دیا تھا۔
روز نامہ قدس کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق نیتن یاہو انتخابات کی دوڑ میں سرکاری افتتاحی میلے میں نمودار ہوئے تو انہوں نے اپنے مضوبط اور با اعتماد ہونے کا احساس دلایا۔ نیتن یاہو نے مطالبہ کیا کہ انہیں اقدار میں رہنے کا موقع دیا جائے تا کہ وہ ان کامیابیوں کا سلسلہ جاری رکھ سکیں جن کی اس سے قبل اسرائیل میں مثال نہیں ملتی۔
دوسری جانب اسرائیل میں دائیں بازو کا شدت پسند حلقہ وزیر تعلیم نفتالی بینٹ کی سربراہی میں اسرائیلی وزیراعظم پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے تا کہ غزہ پٹی اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر گرفت کو سخت کیا جا سکے۔ یہ لوگ نیتین یاہو سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ الخان الاحمر گاؤں کو منہدم کیا جائے۔
دائیں بازو کے ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا کہ لیکوڈ پارٹی کی حکمرانی برقرار رکھنا آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے ہمیں چالیس نشستیں جیتنا ہوں گی۔
اس پر عوام نے نیتن یاہو کی بات منقطع کرتے ہوئے چلّا کر کہا کہ ’’پچاس… پچاس‘‘۔ اس پر دیگر نے آواز لگائی کہ ’’ساٹھ… ساٹھ‘‘۔
اسرائیلی پارلیمنٹ میں نشستوں کی مجموعی تعداد 120 ہے۔
نیتن یاہو نے اپنے خطاب میں اسرائیلی فلسطینی تنازع کا کوئی ذکر نہیں کیا جو کہ اسرائیل کے حوالے سے فیصلہ کن شمار کیا جاتا ہے۔ تاہم اسرائیلی وزیراعظم نے اپنی توجہ ’’ان غیر معمولی کامیابیوں پر مرکوز رکھی‘‘ جو ان کے دعوے کے مطابق اس سے قبل دیکھنے میں نہیں آئیں۔
البتہ نیتن یاہو نے یہ ضرورت کہا کہ ’’ہم نے لبنان اور فلسطینی علاقوں میں ایران ، اس کی ملیشیاؤں اور معاونین پر روک لگا دی ہے‘‘۔
دوسری جانب نیتن یاہو کے حریف امیدواروں نے انتخابی مہم کے پہلے دورے میں شام کے مقبوضہ گولان کے پہاڑی علاقے کا گشت کیا۔ ان حریفوں کا کہنا تھا کہ ’’ہم گولان کے پہاڑی علاقے سے نہیں نکلیں گے۔ ہم وہ واحد طاقت ہیں جو حقیقی صورت میں اسرائیل کے امن کا تحفظ کر سکتے ہیں اور اس کے دشمنوں کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں ، اور یہ کام عمل کے ذریعے کریں گے صرف زبانی خرچ کے ذریعے نہیں‘‘۔