(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) بانی انقلاب اسلامی ایران امام خمینیؒ نے رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔امام خمینی ؒکا عالمی یوم قدس کا اعلان، فلسطین کی جدوجہد کو زندہ کرنے کے لئے بڑامددگارثابت ہوا۔
اگر ہم دنیا کے نقشے میں دیکھیں تومعلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۴۸ کا فلسطین کم ہوتے ہوتے آج کتنا رہ گیا ہے جبکہ چھوٹا سا اسرائیل بڑھتے بڑھتے کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے۔اس کے باوجود فلسطین کے مظلوم عوام جس ظلم و ستم سے گذر رہی ہے اس سے اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے کہ یہودی مسلمانوں سے کیا چاہتے ہیں۔ اس سے یہودیوں کی چالاکی اور عیاری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آج نہ صرف یہودی بیت المقدس پر قابض ہیں بلکہ انھوں نے پوری دنیا کی معیشت پر قبضہ جمایا ہوا ہے۔جس میں ہم بالواسطہ یا بلا واسطہ ان کی مدد کررہے ہیں۔ ہم ان کی مصنوعات کو بڑے پیمانے پر استعمال کرکے نہ صرف ان کی معیشت کی مظبوطی میں مدد کر رہے ہیں بلکہ ہمارے ہی مسلمان بچوں عورتوں مردوں پر چلانے والی گولی تیار کرنے کے لئے بھی مدد کررہے ہیں۔
انقلاب اسلامی ایران کے بعد ایک واضح فرق یہ دیکھنے میں آیا کہ بانی انقلاب اسلامی ایران امام خمینیؒ نے رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔امام خمینی ؒکا عالمی یوم قدس کا اعلان، فلسطین کی جدوجہد کو زندہ کرنے کے لئے بڑامددگارثابت ہوا۔ امام کے پیغام پر مختصر غور سے مسئلہ کی اہمیت کو ہم اجاگر کر سکتے ہیں۔
امام خمینی ؒ کے اس اعلان کے وقت سے دنیا بھر میں قبلہ اول کی آزادی اورفلسطینی مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے یوم القدس منایا جاتا ہے۔ اس موقع پراسلامی جمہوریہ ایران، پاکستان، ہندوستان، لبنان، عراق، بحرین اور فلسطین سمیت دنیا کے کئی ممالک میں القدس ریلیاں نکالی جاتی ہیں – جن میں کروڑوں افراد نے شرکت کرتے ہیں اور امریکہ، اسرائیل اورعالمی استکبار کے خلاف نعرے لگائے جاتے ہیں -اگرچہ حالیہ دو سالوں میں کرونا کی وجہ سے اس طرح کے جلوس وغیرہ نہیں نکالے جاسکے۔ لیکن اب تمام دنیا کے مسلمان بیدار ہوچکے ہیں۔ سوشل میڈیا، ٹیوی چینلز اور اخبارات کے ذریعے مسلمان اپنے جذبات کا بھرپور اظہار کرتے ہیں اور اس تحریک کو زندہ رکھے ہوئے ہیں و ان شااللہ بیت المقدس کی ٓزادی تک جاری رہے گی۔
مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کے اساسی اور بنیادی مسائل میں سے ایک ہے جس نے کئی عشروں سے امت مسلمہ کو بے چین کررکھا ہے – ارض فلسطین جسے انبیاکی سرزمین کہا جاتا ہے اور بیت المقدس جو مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے اس وقت سے غاصب صہیونی ریاست کے قبضے میں ہے جب سے ایک عالمی سازش کے تحت برطانیہ اوراسکے ہم نواہوں کی کوششوں سے دنیا بالخصوص یورپ کے مختلف علاقوں سے متعصب یہودیوں کو فلسطین کی زمین پر بسایا گیا – صہیونیوں کے اس سرزمین پر آتے ہی وہاں کے مقامی فلسطینی باشندوں کو کنارے لگادیا گیا اور آہستہ آہستہ فلسطینیوں پر ظلم و ستم اس سطح پر پہنچ گئے کہ فلسطینیوں کو اپنے ہی ملک میں تیسرے درجے کا شہری بننا پڑا یا مجبور ہوکر انہیں ترک وطن کرنا پڑا –
در حقیقت، صیہونیت کے خلاف جدوجہد، نسلی امتیاز پر مبنی ایک تحریک، کو امام کے افکار کا ایک لازمی ستون سمجھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ امام نے اس مسئلے پر مشترکہ نظریہ رکھنے والے تمام طرز زندگی سے بین الاقوامی دانشوروں کی طرف توجہ دلانے پر اصرار کیا۔ یہ پہلو اس مسئلے کو قومی اور مذہبی پابندیوں سے بالاتر رکھتا ہے، جو فلسطین کے مسئلے پر انسانیت کے تمام تر غور و فکر کے لئے ایک مناسب نقطہ فراہم کرے گا اور اسلامی معاشرے میں اتحاد اور بین الاقوامی برادری کے مابین امن کا باعث ہوگا۔ امام نے زور دے کر کہا کہ یوم قدس "ایک بین الاقوامی دن ہے اور خاص طور پر صرف قدس کے مسئلے تک ہی محدود نہیں رہے گا۔
یوم القدس کو منانے کا مقصد ان صیہونی سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے جو فلسطینیوں کی تباہی اور اس کے خاتمے کے خواہاں تھے۔ اسلامی علامتیں پاک سرزمین کی تشکیل کرتی ہیں۔ فلسطینیوں کے حقوق کا اعتراف اور اس کے اصل باشندوں کو زمین کی واپسی ہی ان تاریخی بحرانوں کا واحد حل ہے۔ صہیونیوں کی ناجائز اسکیمیں صرف اس سرزمین تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ وہ دوسری مسلم سرزمین تک بھی توسیع کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ صیہونی پالیسیوں سے علاقائی اور عالمی سلامتی کو سنگین چیلنجز درپیش ہیں۔ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو "یوم القدس عالمی دن” قرار دینے کا مقصد محدود قومی یا نسلی نظریات کی خدمت کرنے کے بجائے مسلم برادری اور فلسطینیوں کے مفادات کی خدمت کرنا تھا۔
‘عظیم انتفاضہ’ کے نام سے مشہور مزاحمتی تحریک 1987 میں شروع ہوئی تھی جو 1991 تک جاری رہی۔ دوسری مزاحمتی تحریک، جو سن 2000 میں شروع ہوئی تھی، اقصیٰ انتفادہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ مؤخر الذکر تحریک عرب اور اسرائیل کے مابین بے نتیجہ نام نہاد امن مذاکرات کے بعد ابھری۔ اس جدوجہد سے فلسطینیوں کی مایوسی اور مایوسی کی عکاسی ہوئی جو عرب حکومتوں کی طرف سے کسی بھی حمایت سے مایوس ہوگئے جو مسئلہ فلسطین کے معاملے میں غیر فعال تھے۔ 1987 میں اردن کے دارالحکومت عمان میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے دوران عربوں کے سربراہان مملکت کے درمیان اس غفلت کو آسانی سے دیکھا جاسکتا تھا۔ وہاں، پہلی بار، فلسطین کا مسئلہ اپنی ثانوی نوعیت کا ہوگیا، اس کی بجائے انہوں نے اپنا وزن عراق کے پیچھے پھینک دیا۔ اسلامی جمہوریہ کے خلاف اس کی مسلط کردہ جنگ، اور ایران کی مخالفت کو ایجنڈے میں سرفہرست رکھا گیا۔ دریں اثنا، فلسطین کے عوام جو فلسطینی لبریشن فرنٹ(P.L.O) کی کارکردگی سے مایوس ہوئے جب سے اس نے صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت ترک کردی تھی، اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے اپنے آپ کو غیر پیداواری سیاسی کھیلوں میں شامل کرنے تک محدود کردیا تھا۔ دوسرا ‘انتفاضہ’ کی تشکیل میں ملوث ایک اور فیصلہ کن عنصر اسلام اور لوگوں میں یہ بڑھتی ہوئی امید تھی کہ مزاحمت کے مطلوبہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ یہ واضح تھا کہ لوگوں پر بھروسہ کیے بغیر انقلاب کا ہونا ناممکن ہوگا۔ یہ پچھلے سیاسی کھیلوں کے بعد کوئی معجزاتی نتیجہ سامنے نہیں لا سکا۔ تاہم، امام خمینیؒ کے نزدیک، صیہونی حکومت کے چنگل سے قدس کی آزادی کے لئے صرف کچھ وقت درکار ہوگا۔
روایتی اور غیر سرکاری شہری تحریکوں کی وسیع پیمانے پر متحرکیاں معاشرے میں عظیم معاشرتی تبدیلیاں لانے کے لئے ایک ممکنہ طاقت کو موثر سمجھا جاتا ہے۔ فلسطینی مزاحمت تاریخ کے اختتام پر قائم ہوئی تھی جب عشروں سے طویل، غیر دیسی سیاسی اور سفارتی کوششوں سے فلسطینیوں کے حقوق کی بحالی کے خاتمے کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیاتھا، اور غیر مذہبی نظریات نے عوام کو منظم کیا اور اس سرزمین کے وسائل کو شدید دھچکا لگا۔ انتفاضہ نے اسرائیل نواز نظاموں میں موجودہ نظریاتی اور عملی تضادات کو اجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس طرح کے تضادات تب زیادہ واضح ہوجاتے ہیں جب نام نہاد جمہوری نظاموں نے صہیونیوں نے ان لوگوں کے خلاف جرائم کے پیچھے اپنی حمایت پھینک دی جو اپنے ہی ہاتھوں میں مقدر لینے کو تیار ہیں۔
یوم قدس عالمی یوم قرار دینے کا دائمی اقدام، اسرائیل کے وجود کے خلاف مسلم دنیا کی ہمہ جہت مخالفت پر زور دے گا۔ یہ دن مسلم دنیا میں ہمدردی اور اتحاد کا ذریعہ بنا ہے۔ اس طرح، اسلامی اتحاد کی طرف ایک اہم قدم اٹھایا گیا اور نسلی اور قومی رابطوں کو چھوڑ کر متحدہ مسلم برادری کے لئے بنیادیں استوار کردی گئیں۔
یوم قدس نے صیہونی حکومت کے خلاف ایک عظیم جسمانی جنگ کا آغاز کیا اور صہیونی حکومت کے خلاف عوام پر مبنی دباؤ کاموثر ترین کردار ادا کیا، اور انہیں اپنے لالچی منصوبوں کو روکنے پر مجبور کیا۔ یوم قدس ایک بہت بڑا واقعہ ہے جو اسرائیل کے قانونی جواز کو مجروح کرتا ہے۔ یوم قدس نے مسلمانوں کی توجہ امام کے افکار کی طرف مبذول کرائی،تاکہ وہ دنیا میں اسرائیل کی ناجائز نوعیت کے بارے میں خدشات کا اظہار کرے۔ اس دن سے مومنین کے دل کو بھی راحت ملتی ہے۔ دوسری طرف، دنیا بھر میں سیکڑوں ہزار مظاہرین کی ویڈیو فوٹیج صیہونی حکومت میں عدم تحفظ پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
یومِ قدس کیا ہے؟
مظلوم فلسطینی عوام کی حمایت کیلئے روز قدس کا نام بطور سرکاری دن اسلامی جمہوریہ ایران کے انقلابی اور سپریم لیڈر امام خمینی (رح) کی جانب سے مخصوص قرار دیا گیا. یوں 7 اگست 1979 عیسوی کو ایران اور دنیا کے مسلمانوں کے نام پیغام میں، (امام خمینی نے) رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو "روز قدس” کا نام دیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ غاصب اسرائیلی حکومت اور اسکے سرپرستوں کو ناکام و نامراد کرنے کیلئے آپس میں متحد اور یک زبان ہو جائیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ روز قدس کی بحث کے سبب ہمیشہ ہی اس مقصد کو دانشوروں اور اھل ہنر و فن کی جانب سے حمایت حاصل رہی ہے اور آجکل اسی دن کی مناسبت سے ایرانی عوام کے علاوہ، دنیا کے اکثر ممالک میں رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو احتجاجی مظاہرے اور مختلف پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں۔
تحریر: شبیر احمد شگری
بشکریہ روزنامہ پاکستان