ایک سال قبل ترکی اور یورپی ممالک سے فلسطینی محاصرہ زدہ شہرغزہ کی پٹی کے لیے امدادی سامان لے کر آنے اور کھلے سمندرمیں صہیونی جارحیت کا نشانہ بننے والے فریڈم فلوٹیلا نے امسال پھر غزہ آنے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں. امدادی قافلے کے منتظمین”فریڈم فلوٹیلا اتحاد” نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دوسرے امدادی قافلے "فریڈم فلوٹیلا 2” کو بحفاظت غزہ تک پہنچانے میں مدد فراہم کرے اور اسرائیل کو قافلے پرکسی قسم کی جارحیت سے باز رکھے. خیال رہے کہ گذشتہ برس مئی کے آخر میں یورپی امدادی بحری جہازوں اور ترکی کے امدادی جہازوں کا ایک عظیم الشان قافلہ غزہ کی جانب رواں دواں تھا کہ صہیونی فوج نے راستے میں اس پرشب خون مار کر09 ترک رضاکاروں کو شہید اور 50 کو زخمی کر دیا تھا. قابض اسرائیلی فوج نے لاکھوں ٹن امدادی سامان لوٹ کر جہازوں میں سوار سیکڑوں افراد کو یرغمال بنا لیا تھا. ایک سال قبل امدادی قافلہ لے کرغزہ آنے والے عالمی انسانی حقوق کے اداروں نے اس سال وسط مئی میں فریڈم فلوٹیلا 2 کو غزہ لانے کی تیاریاں شروع کی ہیں. مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق غزہ کی معاشی ناکہ بندی ختم کرانے کے لیے سرگرم یورپی مہم کے نگران اور امین ابو راشد نے برسلز میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ایک سال قبل فریڈم فلوٹیلا پر صہیونی فوج کے یلغار کی پوری دنیا نے شدید مذمت کی تھی. ہم عالمی برادری کی جانب سے فریڈم فلوٹیلا کے ساتھ اظہار یکجہتی کو سراہتے ہیں تاہم صرف مذمتی بیانات ناکافی ہیں. عالمی برادری اس سال کے امدادی قافلے کے ساتھ نہ صرف امداد کی فراہمی میں تعاون کرے بلکہ قافلے کو صہیونی جارحیت سے بچا کر بحفاظت منزل مقصود تک پہنچانے میں مدد فراہم کرے. ابو راشد نے کہا کہ گذشتہ برس امدادی قافلے پر اسرائیلی جارحیت کو اسرائیل کی بدترین درندگی قرار دیتے ہوئے صہیونی فوجیوں اور اسرائیل کی عسکری قیادت کے خلاف عالمی عدالتوں میں کارروائی کی جائے. اس ضمن میں اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ بھی ایک مستند دستاویز ہے جوصہیونی جارحیت پر قابض اسرائیل کے خلاف عالمی قانون کے تحت کارروائی کی سفارش کرتی ہے. انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق چارٹر کے جنیوا میں طے پانے والے معاہدے کے آرٹیکل 147 میں جنگی جرائم میں ملوث افراد، شخصیات، طبقات ، ممالک کے بغیر کسی تمیز کے کارروائی کی سفارش کی گئی ہے،تاہم انسانی حقوق چارٹر کے باوجود صہیونی ریاست کےخلاف کسی قسم کی قانونی چارہ جوئی نہیں کی گئی جس کے بعد یہ خدشہ موجود ہے کہ اسرائیل اس سال کے امدادی قافلے کو بھی جارحیت کا نشانہ بنا سکتا ہے. ادھر ہالینڈ کے سفینہ حریت میں شامل بحری جہاز کےترجمان بنگی ڈی لیوی نے کہا ہے کہ وہ اس سال بھی امدادی سامان لے کر غزہ جانے کی تیاری کر رہے ہیں. ہالینڈ میں امدادی سامان جمع کرنے کی مہم کے دوران لیوی نے کہا کہ وہ امن مشن کے لیے کام کر رہے ہیں . ان کا مقصد کسی قسم کی اشتعال انگیزی نہیں. وہ توقع رکھتے ہیں کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پران کی کوششوں میں اسرائیل یا دنیا کوئی دوسراملک رکاوٹ پیدا نہیں کرے گا. انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیل کی جانب سے ان کا امدادی قافلہ روکا گیا تو یہ پہلے کی طرح انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سمجھی جائے گی.