اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) نے واضح کیا ہے کہ فلسطینی عوام کو اسرائیل سے مکمل طور پرنجات کی ضرورت ہے، فلسطین کے علاوہ کسی اور جگہ کو فلسیطنیوں کے لیے مختص کرنا اور ان کے بنیادی حقوق کا متبادل پیش کرنا گمراہ کن فارمولا ہے جسے کسی صورت بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ غزہ میں پیر کے روز جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے آزاد ریاست کے قیام کے لیے کوششیں تیز کرنے کا اعلان 1988ء کے بعد بار بار دوہرائے جانے والے ناکام تجربات ہی کا تسلسل ہے، جب تک فلسطینی علاقوں سے اسرائیل کات تسلط ختم، یہودی آباد کاری کا خاتمہ اورمغربی کنارے میں قائم اسرائیلی فوجی چوکیاں مکمل طور پرختم کرتے ہوئے فلسطینی پناہ گزینوں کو ان کے علاقوں میں آباد ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی فلسطینی ریاست کا وجود بے معنی ہوگا جسے فلسطینی عوام کسی قیمت پرقبول نہیںکریں گے۔ بیان میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ کی اسرائیلی جنگی جرائم سے متعلق رپورٹ پرفلسطینی اتھارٹی کے موقف کے سامنے آنے کے بعد ان کی جانب سے آزاد فلسطینی ریاست کے لیے مطالبہ ایک مضحکہ خیز اقدام ہے، فلسطینی عوام کو اتھارٹی پراعتبار اٹھ چکا ہے، لہٰذا جب تک فلسطینی اتھارٹی مزاحمت کچلنے کی پالیسی ترک کرکے اسرائیل کے ساتھ شروع کیے گئے سیکیورٹی تعاون سے دستکش نہیں ہوجاتی فلسطینی ریاست کی جانب کوئی پیش رفت نہیں کی جاسکتی۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ فلسطینیوں کو ایسی ریاست کی قطعی ضرورت نہیں جس میں فلسطین عوام کی بالادستی نہ ہو اور فلسطینیوں کی حکومت پر قدغنیں موجود ہوں جبکہ اسرائیل نو آزاد ریاست کے لیے مستقل خطرہ موجود رہے فلسطینی ریاست نہیں سمجھی جائے گی۔ حماس نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطلب اسرائیل سے کیے گئے اوسلو معاہدے سمیت وہ تمام معاہدات کالعدم ہو جائیں گے جو تنظیم آزادی فلسطین کے طریقہ کار کے خلاف ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی اگر آزاد ریاست کے قیام کا اعلان کرتی ہے تو وہ اس سے قبل فلسطین کے چپے چپے سے اسرائیل قبضے خاتمے کا مطالبہ کرے اور بیرون ملک پناہ گزین لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے وطن واپس لائے تاکہ ان سلب شدہ حق انہیں واپس دلایا جا سکے۔