عرب ممالک بالخصوص مصر،تیونس اور لیبیا میں آنے والے عوامی انقلابات پر اسرائیلی ماہرین اور تھینک ٹینکس پورے شدومد کےساتھ تجزیے کر رہے ہیں. اسرائیل کے ایک سابق سفارت کاراور سیاسی امورکے ماہرڈاکٹر” ڈوری گولڈ” نے اپنے ایک تازہ مضمون میں تیونس اور مصر میں آنےوالے انقلابات اور اس کے اسرائیل پر پڑنے والے اثرات کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے. ڈوری گولڈ لکھتے ہیں کہ عرب ممالک میں جس نوعیت کے حالات اب پیدا ہوئے ہیں ان کی پیشگوئی بہت پہلے کی جا چکی تھی تاہم تبدیلی کا یہ عمل بہت بعد میں آیا ہے. مصر،تیونس،اردن،یمن،بحرین اور لیبیا میں اُٹھنے والی احتجاجی تحریک کے بعد اسرائیل کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی بالخصوص پڑوسی ملکوں کےحوالے سے حکمت عملی تبدیل کرے. صہیونی تجزیہ نگار اعتراف کرتے ہیں کہ عرب ممالک میں جمہوریت کی عدم موجودگی کے باعث عرب ـ اسرائیل تنازعہ حل نہیں ہو سکا.اگر اسرائیل کی طرح عرب ملکوں میں بھی جمہوری نظام رائج ہوتے تو مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور فلسطین کا تنازعہ بہت پہلے حل ہو چکا ہوتا. گولڈ کا کہنا ہے کہ عرب ممالک میں آنے والی تبدیلیوں کے ساتھ عوامی سطح پراسرائیل سے کی جانے والی نفرت بھی معنی خیزہے.اسرائیل کو سمجھ لینا چاہیے کہ عرب ممالک کے عوام میں صہیونی ریاست کے ساتھ نفرت کی دیگر وجوہات میں ایک بنیادی وجہ اسرائیل کی عرب ممال میں جمہوریت کی مخالفت بھی رہی ہے. یہی وجہ ہے آج وہ تمام حکمران اور حکومتیں عرب عوامی غیض وغضب کا شکار ہیں جو اسرائیل کی حمایت کرتی رہی ہیں اور ملک میں جمہوریت کےخلاف پالیسیاں وضع کرتی رہی ہیں. اسرائیلی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ وہ ممالک جو اسرائیل سےتعلقات سے گریزاں رہے ہیں وہاں کےعوام ان حکمرانوں کےخلاف نہیں اٹھے. مثال کے طور پر شام کے صدر بشارالاسد بھی ایک مطلق العنان حکمران ہیں تاہم اسرائیل کےحوالے سے ان کے سخت گیر موقف کی وجہ سے عوام نے انہیں قبول کر رکھا ہے. انہوں نے شام کے صدر بشارالاسد کے اخبار وال اسٹریٹ جنرل کو دیے گئے ایک انٹرویو کا بھی حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مصر اور تیونس میں انقلاب ان حکومتوں کی اسرائیل نواز پالیسی کی وجہ سے آئے ہیں، جبکہ ان کے مقابلے میں شام کےاسرائیل کےساتھ کسی قسم کے تعلقات نہیں، یہی وجہ ہے کہ شامی عوام بھی میرے خلاف نہیں. صہیونی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ عرب ممالک میں جمہوریت مخالف عناصر کی اب بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو ملک میں انتشار سے فائدہ اٹھا کر اقتدار اپنےقبضے میں لینے کے خواہش مند ہیں. کئی گروہ دوسروں کا خوف دلا کر اپنی اہمیت جتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ فلاں گروپ کے پاس حکومت آ گئی تو وہ ملک کو جمہوریت کے بجائے کسی دوسرے نظام کی طرف لے جائے گا. مسٹر ڈوری گولڈ نے مصرکی اخوان المسلمون اورفلسطین کی اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے طریقہ جمہوریت پر بھی تنقید کی ہے.ان کا کہنا ہے کہ سنہ 2007ء میں مصر کی اخوان المسلمون نے جمہوریت کے لیے یہ نعرہ اخیتار کیا ہے کہ "اسلام ہی اصل جمہوریت ہے”. اخوان المسلمون کے اس نعرے کے درپردہ مصر اور پورے عالم عرب میں اسلامی حکومتوں کا قیام ہے.