عرب ملک تیونس میں عوامی احتجاج کے نتیجے میں آنے والی سیاسی تبدیلی کے بعد مجموعی طور پر تمام عرب ممالک بالخصوص کرپشن میں ملوث حکمران پریشان ہو گئے ہیں. مرکز اطلاعات فلسطین کی تیارکردہ ایک تازہ رپوٹ میں بتایا گیا ہے کہ تیونس کے انقلاب سے دیگر کرپٹ ممالک کی قیادت پریشانی سے دوچار ہے وہیں فلسطینی اتھارٹی کے وہ عناصر جو بدعنوانی میں ملوث ہیں سخت اضطراب کی کیفیت سے دوچار ہیں. رپورٹ کے مطابق عرب ملک تیونس کے عوام نے چھ درجن سے زائد افراد کی جانوں کی قربانی دے کر نہ صرف تیونس میں عوامی بیداری کا ثبوت دیا ہے بلکہ اس سے پوری عرب دنیا میں عوامی بیداری کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے.بیداری کی اس نئی لہر کے اثرات فلسطینی عوام میں بھی دیکھے گئے ہیں. جو نہ صرف اسے محسوس کر رہے ہیں بلکہ تیونسی عوام کے ساتھ کھل کا اظہاریکجہتی کر رہے ہیں. رپورٹ کے مطابق فلسطینی تیونسی صدر زین العابدین بن علی کی جلا وطنی سے قبل فلسطینی اتھارٹی نے صدر عابدین کو اپنے ایک پیغام میں ان سےمکمل یکجہتی کا اظہار کیا تھا تاہم جب صدرعابدین ملک سے فرار ہو کر سعودی عرب چلےگئے توفلسطینی اتھارٹی مکر گئی کہ اس نے زین العابدین سے کسی قسم کا اظہار یکجہتی کیا ہی نہیں. فلسطینی سیاسی امور کے ماہرمصطفیٰ صواف نے مرکز اطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تیونس میں صد زین العابدین کی جلاوطنی نے ڈکٹیٹرشپ کے "چَین” سلسلے کو توڑ دیا ہے اور اس تسبیح کے دانے بکھر گئے ہیں. تیونسی صدر کے جانے سے تیونس ہی میں سیاسی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ تبدیلی عالمگیر ہو گی. کم ازکم اس کے بہت زیادہ اور مثبت اثرات عرب ممالک کی سیاست پر پڑیں گے. فلسطینی تجزیہ نگارکا کہنا تھا کہ تیونسی صدر کے تئیس سالہ اقتدار کے خاتمے سے نہ صرف ڈکٹیٹرشپ کی چولیں ہِل گئی ہیں بلکہ کرپٹ اور بدعنوان عناصر کو اپنی فکر لاحق ہو گئی ہے.