امریکا کے ایک معرو ف اخبار "نیویارک ٹائمز”نے اپنی صفحہ اول کی ایک رپورٹ پر انکشاف کیا ہے کہ عالم عرب اور مصر کے ممتاز عالم دین علامہ یوسف القرضاوی کی اپنے وطن مصر واپسی پر مغرب اور امریکا شدید تشویش سے دوچار ہیں. گذشتہ جمعہ کے قاہرہ میں تحریر اسکوائر میں لاکھوں کے عوامی اجتماع سے ان کے خطاب اور لاکھوں لوگوں کی ان کی اقتدا میں نماز جمعہ کی ادائیگی پر مغرب کی تشویش میں مزید اضافہ ہو گیا ہے. مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اخبار نے اپنی ہفتے کی اشاعت میں شامل رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکا اور مغرب یہ سمجھتے ہیں کہ ایک ایسا شخص جس کی برطانیہ اور امریکا میں داخلے پر پابندی ہے وہ کھلے عام مصر میں نماز جمعہ کی امامت کرا رہا ہے اور لاکھوں لوگ دیوانہ وار اس کے پیچھے نماز کی ادائیگی کے لیے لپکے چلے آ رہے ہیں. رپورٹ کے مطابق امریکا اور یورپ کی حکومتیں اور ان کے منصوبہ ساز ادارے یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ مصر میں سابق صدرحسنی مبارک کے نظام حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں اسلامی طرز کی حکومت بننے جا رہی ہے.ان کے اس تاثر کو مزید تقویت جمعہ کے روز اخوان المسلمون کے حامی سمجھے جانے والے عالم دین کے پیچھے لاکھوں لوگوں کی نماز کی ادائیگی ہے. اخبار مزید لکھتا ہے کہ مصر اور تیونس میں آنے والی تبدیلی کے پس پردہ یوسف قرضاوی جیسے مذہبی ذہن رکھنے والے افراد کا بھی بڑا کردار ہے.علامہ یوسف القرضاوی کا اپنا ایک ٹی وی چینل ہے جسے عرب ممالک میں دیکھنے والوں کی تعدواد کروڑوں میں ہے. یوں ایک اعتبارسے علامہ یوسف القرضاوی کے عالم عرب اور اسلامی دنیا میں چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے. رپورٹ کے مطابق مغرب یہ سمجھتا ہے کہ علامہ یوسف القرضاوی کی قاہرہ واپسی مصر میں مستقبل میں وجود میں آنے والی کسی بھی حکومت پر براہ راست اثرانداز ہو گی.