فلسطین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم” مرکز میزان برائے انسانی حقوق” کے ڈائریکٹر پروفیسرعصام یونس نے فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے گولڈ سٹون کی رپورٹ پر بحث رکوانے کے اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اتوار کے روزغزہ کی پٹی میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے زیراہتمام گولڈ سٹون کی رپورٹ روکے جانے کے خلاف کیے گئے ایک مظاہرے کے دوران انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گولڈ سٹون کی رپورٹ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشن کی جانب سے تیار کی گئی تھی، اس پربحث روکنا انسانی حقوق کے اداروں کے لیے نہایت خطرناک ہے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی جانب سے بحث میں تاخیر کرانے کے اس اقدام کی تحقیقات ہونی چاہیے اور اس فیصلے کے پس پردہ عناصر کو بے نقاب کرکے ان کے خلاف سخت کارروائی جانے چاہیے۔ عصام یونس کا کہنا تھا کہ 1967 سے اب تک اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر مسئلہ فلسطین سے متعلق ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ یہ اقدام اپنی نوعیت کا منفرد فیصلہ ہے جس سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق کردار پرسوالات پیدا ہوگئے ہیں۔ اقوام متحدہ میں کسی قرارد اد پرعمل درآمد کے تسلیم شدہ اور متعین اصول ہیں جن کی روشنی میں کسی قرارداد پر ووٹنگ کی جاتی ہے اور حتمی فیصلہ ادارے کے ممبران کے ووٹنگ پرکیا جاتا ہے۔ کسی ایک فریق کی جانب سے ووٹنگ روکنے کا مطالبہ ایسے میں حیران کن ہے کہ رپورٹ کی تیاری بھی خود اقوام متحدہ کے زیر انتظام کی گئی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں جنگ کے دوران اسرائیل نے جس انداز میں انسانی حقوق کی پامالیاں کیں، ماضی میں ان کی کسی اور مقام پرمثال نہیں ملتی۔ ایسے میں اقوام متحدہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ جنگی جرائم میں براہ راست ملوث صہیونی فوجیوں اور جرائم کا حکم دینے والی اسرائیلی حکومت کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔ انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کے اس بیان کو مسترد کر دیا کہ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کمیٹی میں ممبرممالک کی اکثریت نہ ہونے ہونے کی وجہ سے رپورٹ پر ووٹنگ روکے جانے کی سفارش کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی حکام کا یہ دعویٰ جھوٹ پرمبنی ہے کہ کمیٹی میں کورم پورا نہیں تھا۔ انسانی حقوق کمیٹی کا کورم پورا تھا اور یہ امکان بھی موجود تھا کہ 46 ممبر ممالک میں سے کم از کم 33 ممبران کی رپورٹ کو حمایت بھی حاصل ہو جاتی۔ عصام یونس نے کہا کہ اقوام متحدہ میں گولڈ سٹون کی رپورٹ پر بحث روکنا انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے ایک افسوسناک اور خطرناک اقدام ہے۔ بدترین جنگی جرائم کی تحقیقات اگر اقوام متحدہ میں نہیں ہوپاتیں تودنیا میں ایسا دوسرا کونسا فورم ہے جہاں مظلوم فلسطینی عوام کی داد رسی کی جائے گی اور ان کی آواز سنی جائے گی۔