اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے ترجمان ڈاکٹر سامی ابو زھری نے کہا ہے کہ مسلح مزاحمت ان کی جماعت کی اولین اورپسندیدہ اسٹریٹجی ہے۔ یہ حکمت عملی اس وقت تک جاری رہے گی جب فلسطین کی ساری سرزمین آزاد اور فلسطینیوں کو ان کے سلب شدہ حقوق واپس نہیں کر دیے جاتے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز غزہ کے شہر خان یونس میں "معرکہ فرقان” کے ایک سال مکمل ہونے سے متعلق مسجد صحوہ اسلامیہ میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ حماس کے ہاں ماضی میں بھی مزاحمت کی اولین حکمت عملی رہی ہے اور آئندہ بھی اسی حکمت عملی پر عمل کیا جائے گا۔ حماس اپنے ساتھ وابستہ افراد اور تنظیم کے طریقہ کار سے متفق افراد کو اسی حکمت عملی کو اپنانے کی تلقین کرتی ہے۔ ابو زھری نے کہا کہ صرف بندوق کا یا تلوار کا استعمال ہی مزاحمت نہیں ، بلکہ دشمن کے سامنے خود کو سرنڈر کرنےسے انکار بھی مزاحمت کا حصہ ہے۔ جب ہم اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار اور غزہ کی معاشی ناکہ بندی کا اسرائیل کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں تو یہ بھی مزاحمت ہی ہے۔ حماس کے راہنما نے کہا کہ مسلم امہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے مزاحمت کی حکمت عملی کو ترک کر چکی ہے یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام کو درپیش مسائل کے حل میں کوئی پیش رفت نہیں ہو پا رہی۔ مزاحمت ترک کرنے والے بعض ممالک فلسطینی عوام پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ فلسطینی بھی مزاحمت ترک کر کے اسرائیل کو تسلیم کر لیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا اور اسرائیل فلسطینی عوام کو بھوک اور غربت کی سمندر میں دھکیل کر اپنے مقاصد کی تکمیل چاہتےہیں۔ فلسطینیوں کے منہ سے لقمہ چھین کر انہیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیلی جبر و تسلط اور امریکا کی ظالمانہ شرائط کے سامنے سرتسلیم خم کر لیں۔ ابوزھری نے مزید کہا کہ گذشتہ برس غزہ پر اسرائیل کی مسلط کردہ جارحیت اور جنگ کا مقصد بھی فلسطینیوں کو مسلح مزاحمت ترک کرنے پر مجبورکرنا تھا، تاہم اسرائیل اپنے اس مذموم مقصد میں بری طرح ناکام ثابت ہوا۔ جنگ نے تحریک مزاحمت کمزور کرنے کے بجائے فلسطینی عوام کو ایک نیا حوصلہ دیا۔ غزہ کے گرد مصر کی جانب سے لگائی جانے والی آہنی باڑ پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے فلسطینی عوام کی مشکلات کو مزید بڑھانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حماس فلسطینی جماعتوں کے درمیان مفاہمت کے لیے پوری طرح کوشاں رہے گی تاہم یہ کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتیں جب تک محمود عباس امریکا اور اسرائیل کی شرائط سے نکل کر قومی مفاد میں فیصلے نہیں کریں گے۔