مسجد الاقصی کے چھ روزہ محاصرے کے بعد غاصب صہیونی ریاست نے رائے عامہ اور بین الاقوامی احتجاج کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے اپنے موقف سے پسپا ہوکر مسجد کا محاصرہ ختم کرنے پر مجبور ہوگئی. الجزیرہ ویب سائٹ نے رپورٹ دی ہے کہ روز جمعہ فلسطینی جماعتوں کی طرف سے یوم الغیظ کے نام سے منایا جارہا تھا اور فلسطین اور دنیا کے دوسری ممالک میں یوم الغیظ کے سلسلے میں احتجاج کرنے والی لاکھوں مسلمانوں نے فلسطین، قدس اور مسجدالاقصی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا. مظاہرین نے مسجدالاقصی میں صہیونیوں کے مظالم کی بھرپور مذمت کی اور مسجد الاقصی کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا. نماز جمعہ کے بعد مسلمانوں کے قبلۂ اور "مسجد الاقصی” کے دروازے "رأس العمود” کے باہر ـ مسجد الاقصی کے گرد صہیونیوں کے سیکورٹی اقدامات کے خلاف احتجاج کرنے والے فلسطینیوں اور صہیونی سیکورٹی فورسز کے درمیان ـ شدید جھڑپیں ہوئیں اور ان جھڑپوں کے نتیجے میں متعدد فلسطینی زخمی یا گرفتار ہوئے. اسی اثناء میں الجزیرہ کے نامہ نگار نے آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے رپورٹ دی ہے کہ (جمعہ کے روز) عصر کے وقت صہیونی سیکورٹی فورسز نے رکاوٹیں ہٹانے کا کام شروع کیا اور معلوم ہوتا تھا کہ مسجدالاقصی کا محاصرہ ختم ہونے والا ہے. مسجدالاقصی کے مقدس حرم کی طرف کھلنے والے دروازے "الاسباط” کی سامنے کھڑی صہیونی رکاوٹیں ہٹا لی گئیں اور صرف ایک رکاوٹ باقی ہے جو محاصرے سے پہلے بھی موجود تھی. انہوں نے کہا کہ فلسطینی عمر کی حد کی شرط کے بغیر مسجد میں داخل ہوکر نماز اور عبادت میں مصروف ہوگئے اور صہیونیوں کی طرف سے عمر کی قید کی شرط بھی ختم ہوگئی. قابل ذکر ہے کہ فلسطینی جماعتوں کی طرف سے یوم الغیظ اور مظاہروں کے اعلان کے بعد صہیونی افواج نے قبلۂ اول کا محاصرہ شدید تر کردیا تھا اور صرف ان افراد کو مسجد میں داخلے کی اجازت دے رہی تھیں جن کی عمر 50 برس سے اوپر ہو اور ان کے پاس اسرائیلی شناختی دستاویزات ہوں. بہر حال پورے مقبوضہ فلسطین، غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے تمام علاقوں میں مظاہروں کی کال دی گئی تھی اور لاکھوں فلسطینیوں نے تحریک مزاحمت کے قائدین کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے صیہیونیوں کو قبلۂ اول کے محاصرے کے خاتمے پر مجبور کردیا.