اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے مرکزی راہنما ڈاکٹر محمود الزھار نے کہا ہے کہ مصر کی جانب سے تیار کردہ مفاہمتی دستاویز پر معمولی نوعیت کے اختلافات باقی رہ گئے ہیں، تمام فریق تھوڑی سی لچک کا مظاہرہ کریں تو وہ اختلافات دور کرکے جلد از جلد مفاہمت کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے۔ غزہ میں ایک خبررساں ادارے کو انٹرویو میں انہوں نے اپنے دورہ کویت کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ان کے کویت جانے کا مقصد انٹرنیشنل اسلامک پارلیمنٹرینز کلب کے اجلاس میں شرکت تھی، وہ مفاہمت سے متعلق کسی قسم کی بات چیت کے لیے نہیں گئے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر محمود الزھار نے کہا کہ محمود عباس کی جانب سے آئندہ انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان خود کو غیرمتنازعہ بنانے کی ایک کوشش ہے۔ محمود عباس کی یہ کوشش ناکام رہے گی کیونکہ عوام میں وہ ایک غیرمقبول راہنما ہیں۔ انہوں نے محمود عباس کے استعفے کے اعلان کو”سیاسی مشق” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی مشق صرف شخصیت کی جانب سے موثر ثابت ہو سکتی ہے جو عوامی سطح پر مقبول سجھی جاتی ہو اور اس کے اعلان پرعوام سڑکوں پر نکل ائیں اور ان سے اپنا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کریں، جبکہ محمود عباس کے اعلان کے بعد عوام میں ان کی حمایت میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، جس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ وہ ایک غیر مقبول شخصیت ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں حماس کے راہنما کا کہنا تھا کہ محمود عباس کے جانے سےفلسطین میں قیادت کا کوئی خلا پیدا نہیں ہوگا اور نہ ہی انکی رخصتی پر کسی کو افسوس ہو گا۔ عوام جانتے ہیں کہ وہ ایک خونی انقلاب کے ذریعے برسراقتدار آئے اور 2006ء کے شفاف انتخابات کے برعکس انہوں نے رام اللہ میں اپنی مرضی کی غیر قانونی حکومت تشکیل دی جس کی وجہ سے وہ عوام میں ناپسندیدہ ہو چکے ہیں۔