اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ہائی کمشنر نے سوئٹزرلینڈ میں ریفرنڈم کے ذریعے مساجد کے میناروں کی تعمیر پرپابندی کے فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ اس سے متعدد ممالک میں غیر ملکیوں کے خلاف خوفناک مہم شروع ہوسکتی ہے اور یہ اقدام سوئٹزر لینڈ کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے بھی زمرے میں آئے گا۔ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر نیوی پلے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسلام یا کسی بھی دوسرے مذہب سے وابستہ تعمیراتی ڈھانچے پر پابندی کا فیصلہ واضح طور پر امتیازی ہے اور اس کے خوفناک مضمرات ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ” میناروں کی تعمیر پر پابندی کا فیصلہ نہ صرف امتیازی بلکہ تقسیم پیدا کرنے والا ہے اور اگر سوئٹزرلینڈ یہ اقدام کرتا ہے تو یہ ایک بدقسمتی ہوگی اور یہ ملک بین الاقوامی انسانی حقوق سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کی بھی خلاف ورزی کا مرتکب ہو گا”۔ ”میں ہر کہیں رہنے والے لوگوں پر زوردوں گی کہ وہ اس امتیازی ایشو کو سنجیدگی سے لیں۔اگر امتیازی فیصلے پر عمل درآمد اورعدم رواداری کی اجازت دے دی جاتی ہے تو اس سے نہ صرف ہدف بنائے جانےو الے گروپ کے کے ارکان کو انفرادی طور پرنقصان پہنچے گا بلکہ اس سے پورے معاشرے میں تقسیم اور اسے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے”۔نیوی پلے کا اپنے بیان میں کہنا تھا۔ آزاد ماہرین پر مشتمل اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ میناروں پر پابندی کے اقدام سے سوئٹزر لینڈ شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی کنونشن کی خلاف ورزی کا بھی مرتکب ہوگا حالانکہ اس نے اس معاہدے پردستخط کررکھے ہیں۔ نیوی پلے کے ترجمان روپرٹ کولویلی نے ایک نیوزبریفنگ کے دوران سوئٹزر لینڈ کے پابندی کے اقدام کو انسانی اور شہری حقوق کے معاہدے کی خلاف ورزی قراردینے سے گریز کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر اس فیصلے کے ناقدین اس کوکسی عدالت میں چیلنج کرتے ہیں تو پلے کے دفتر کی جانب سے بھی عدالت میں اپنی ایک رائے پیش کی جائے گی۔ پاکستان، فلسطین اور ترکی نے سوئٹزرلینڈ میں مساجد کے میناروں پر پابندی کے لئے ریفرنڈم کو بنیادی انسانی اقدار اور آزادیوں کے خلاف ایک ”بدقسمت پیش رفت” قراردیا ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سوئس عوام کے اس فیصلے کی وجہ سے ہمارے ملک کے عوام کو گہرا صدمہ پہنچا ہے۔بیان میں اس توقع کا اظہار کیا گیا ہے کہ سوئٹزر لینڈ صورت حال کی بہتری کے لئے اقدامات کرے گا۔ پاکستان نے سوئٹزرلینڈ میں مساجد کے میناروں کے خلاف عوامی ریفرنڈم پر تنقیدکرتے ہوئے اس فیصلے کی واپسی پر زوردیا ہے ۔دفتر خارجہ کے ترجمان نےمنگل کواسلام آبادمیں جاری کردہ بیان میں کہا کہ مساجد کے میناروں کے خلاف سوئس ریفرنڈم کا نتیجہ دنیا میں بین المذاہب ہم آہنگی اور برداشت کے لئے غیرمعاون اقدام ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے توقع ظاہر کی کہ سوئٹزرلینڈ کی حکومت، جو خوداس ریفرنڈم کی مخالف رہی تھی ، اب آئین کے تحت اقدام کرکے ریفرنڈم کے فیصلے کو ختم کرائے گی سوئٹزرلینڈ کے کثیر الاشاعت روزنامے بلک نے ریفرنڈم میں میناروں کی تعمیر پر پابندی کا دفاع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے مذہبی آزادی پرکوئی قدغن نہیں لگتی اور غیر ملکی تارکین وطن کوسوئس معاشرے میں جذب ہونے کے لئے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ بلک نے منگل کو اپنے صفحہ اول پر یہ شہ سرخی جمائی ہے:”ہمیں خودپر شرمندہ نہیں ہونا چاہئے”۔اخبار نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ”ہمیں اس سوال کا ایک واضح جواب درکار ہے کہ کیا مسلمان کسی اگر،مگر کے بغیر ہمارے قانونی نظام کو تسلیم کرنے کو تیار ہیں”۔ سوئٹزرلینڈ میں اتوار کو منعقدہ ریفرنڈم میں ستاون فی صد سے زیادہ ووٹروں نے مساجد کے میناروں کی تعمیر پر پابندی کی منظوری دی تھی۔مساجد کے میناروں پر پابندی کے لئے مہم سوئٹزرلینڈ کی بڑی جماعت سوئس پیپلز پارٹی ایس وی پی نے چلائی تھی اور اس کا دعویٰ تھا کہ مینار مسلمانوں کی سیاسی اورمذہبی قوت کی علامت ہیں۔سوئس قواعدوضوابط کے تحت ایس وی پی نے پابندی لگوانے کے لئے ریفرنڈم کے انعقاد کی غرض سے اٹھارہ ماہ کے دوران ایک لاکھ اہل ووٹروں کے دستخط حاصل کئے تھے۔ سوئس حکومت میناروں کی تعمیر پر پابندی لگانے کے لئے ریفرنڈم کے انعقاد کی مخالفت کرتی رہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ا س اقدام سے ملک کا بیرونی دنیا میں تشخص مجروح ہوگا۔سوئس حکومت کا موقف تھا کہ میناروں پر پابندی مذہبی آزادی اورانسانی حقوق کے بھی خلاف ہے اور اس سے انتہا پسندی کو فروغ ملے گا۔ واضح رہے کہ سوئٹزرلینڈ میں مسلمان اقلیت کے حکومت اورعیسائی اکثریت کے ساتھ تعلقات ناخوشگوار رہے ہیں۔اس ملک کی کل آبادی ستتر لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جن میں قریباًچار لاکھ مسلمان ہیں اور اسلام عیسائیت کے بعد اس ملک کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔