غزہ کے وسط میں قائم النصیرات کیمپ کی 34 سالہ حنین المبحوح اس وقت ایک ویل چیئر پر بیٹھی ہے۔ اس کی نظریں اس کی بائیں ٹانگ پر جمی ہیں جو اب موجود نہیں۔ مگر یہ بتر (کٹاؤ) اس کے وجود کا سب سے بڑا زخم نہیں، اس کی روح اس وقت چور چور ہو گئی جب اس نے ایک ہی لمحے میں اپنی چار بیٹیوں کو ایک صہیونی میزائل حملے میں کھو دیا، وہ حملہ جس نے اس کے گھر اور زندگی دونوں کو اجاڑ دیا۔
حنین اس ہولناک رات کی تفصیل بتاتے ہوئے تھرتھرا جاتی ہے۔ مدھم اور ٹوٹتی ہوئی آواز میں کہتی ہے، “گذشتہ برس دس جولائی کی رات، ٹھیک ایک بجے، میں اپنے شوہر اور چاروں بیٹیوں کے ساتھ سو رہی تھی جب ایک میزائل سیدھا ہمارے گھر پر آن گرا”۔
کچھ لمحوں کے لیے وہ خاموش ہو جاتی ہے، پھر دھیرے سے بولتی ہے “ہمیں ملبے کے نیچے سے نکالا گیا، میں بری طرح زخمی تھی، جسم کے کئی حصے جھلس گئے تھے، شوہر بھی زخمی تھا۔ مگر میری بیٹیاں۔ انہیں بعد میں ہمارے گھر سے دور ایک ہمسائے کی چھت پر پایا گیا، دھماکے نے انہیں ہوا میں اچھال کر وہاں پھینک دیا تھا”۔
حنین کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ وہ یاد کرتی ہے “جب مجھے ملبے سے نکالا گیا تو فوراً بے ہوش ہو گئی۔ جب ہوش آیا تو خود کو مشینوں سے جڑا ہوا پایا، جسم پر سفید پٹیاں، لوہے کی سلاخیں، اور ہر طرف ہسپتال کی بو۔ میں بار بار بیٹیوں کے بارے میں پوچھتی مگر ہر بار دوبارہ بے ہوش ہو جاتی”۔
النصیرات میں العودہ ہسپتال زخمیوں اور شہداء سے بھرا ہوا تھا، وہاں جگہ نہ ملنے پر اسے امریکی ہسپتال منتقل کیا گیا۔ وہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ حنین کے جسم میں جگہ جگہ چھرے پیوست ہیں، دائیں گھٹنے کا جوڑ چکنا چور ہے، بایاں ٹخنا بری طرح تباہ، بائیں ہاتھ میں فریکچر، چہرے اور ہاتھوں پر زخم، جبڑے اور دانت ٹوٹے ہوئے ہیں۔
“ابتدا میں ڈاکٹروں نے دونوں ٹانگیں کاٹنے کا فیصلہ کیا کیونکہ زخموں میں شدید جلن اور انفیکشن پھیل چکا تھا۔” وہ بتاتی ہے کہ بعد میں معلوم ہوا کہ میرا پیٹ بھی زخمی ہے، اندرونی خون بہہ رہا ہے، جسم میں خون کی مقدار صرف چار رہ گئی تھی، بخار تیز اور آکسیجن کی شدید کمی تھی۔ اسی حالت میں چالیس دن آئی سی یو میں رہی اور آخرکار میری بائیں ٹانگ کاٹ دی گئی”۔
وہ گہرا سانس لیتی ہے۔ “سب سے طاقتور درد کش دوائیں بھی بے اثر ہو گئیں۔ اصل درد تو وہ تھا جب میری بیٹیوں کی لاشوں کو میں دیکھ بھی نہ سکی۔ میری روح میری ٹانگ سے پہلے کٹ چکی تھی”۔
چالیس دن بعد حنین کو انتہائی نگہداشت سے عام وارڈ میں منتقل کیا گیا۔ چھ ماہ وہ ہسپتال میں زیرِ علاج رہی، متعدد آپریشن کروائے، مگر اب بھی جسم اور دل دونوں پر زخم تازہ ہیں۔
“میں چھ مہینے تک مسلسل لیٹی رہی، میری کمر پر دردناک زخم بن گئے” ۔وہ بتاتی ہے “اب میرا سب سے بڑا خواب ہے کہ مجھے بیرونِ ملک علاج کی اجازت مل جائے۔ میں جسمانی اور نفسیاتی دونوں تکلیفوں میں جیتی ہوں۔ میری روح اور میرا جسم دونوں ٹوٹ چکے ہیں، مگر امید ابھی باقی ہے۔ میں زندہ ہوں کیونکہ میں جینا چاہتی ہوں۔”
حنین المبحوح غزہ کے لاکھوں مظلوموں کی کہانی ہے۔ایک ماں جو اپنی بیٹیوں کو قابض اسرائیل کی درندگی میں کھو بیٹھی، مگر پھر بھی زندگی سے جڑے رہنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔