فلسطینی معروف رہنما یوسف ابوزھری کے اہل خانہ نے مصری اسٹیٹ سکیورٹی پر ان کے قتل کا الزام عائد کر دیا ہے۔ مصری انقلاب کے بعد منظر عام پر آنے والی خفیہ دستاویز سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ مصری سکیورٹی اہلکاروں نے دوران تفتیش ان پر بہیمانہ تشدد کر کے شہید کر دیا تھا۔ اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کے ترجمان اور یوسف ابو زھری کے بھائی سامی ابوزھری نے کہا کہ ان کے خاندان نے مصری جیلوں سے رہا ہونے والے دو فلسطینی قیدیوں کی معرفت اپنے بھائی یوسف کی شہادت کی تفصیلات معلوم کر لی ہیں۔ غزہ میں منعقد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سامی ابوزھری نے کہا کہ وہ ان دونوں فلسطینی قیدیوں سے مل چکے ہیں جو 10 اکتوبر 2009ء کے دن مصری عقوبت خانے میں یوسف کی شہادت کے موقع پر وہیں موجود تھے۔ جیل میں جس جگہ یوسف کی نعش کو رکھا گیا وہ وہاں سے انتہائی قریب تھے انہوں نے یوسف کے جسم پر بہیمانہ تشدد اور بجلی کے جھٹکوں کے نشانات واضح طور پر دیکھے ہیں۔ سامی ابوزھری نے کہا کہ یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ یوسف کی موت مرض کی وجہ سے نہیں بلکہ مصری فوج کی تشدد سے ہوئی تھی۔ انہیں طویل مدت تک تشدد اور بجلی کے جھٹکوں سے گذارا جاتا رہا ہے۔ بہ قول سامی ابوزھری مصری سکیورٹی کی جانب سے قیدیوں پر تشدد سے ایک بار پھر مصر کا اسرائیلی حکومت سے گٹھ جوڑ ثابت ہو گیا ہے۔ انہوں نے شہید یوسف ابو زھری کی شہادت کے کیس کی تحقیقات از سر نو کرنے اور ان کی شہادت کے ذمہ داروں کو عدالت کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا خاندان مصری اٹارنی جنرل کی جانب سے معاملے کی تحقیقات کی بندش کے حکم کو مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا معاملے کی شفاف تحقیقات سے گریز غیر قانونی ہے۔ انہوں نے مصری حکام پر اس کیس کی ذمہ داری قبول کرنے کا مطالبہ کیا تا کہ اصل مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا جا سکے۔ انہوں نے کہا یوسف ابو زھری کی گرفتاری، تشدد اور قتل کے ثابت ہونے پر مصر کی سابقہ حکومت کے دور سے گرفتار بے گناہ فلسطینی اسیران کی رہائی کا معاملے کو بھی تقویت ملتی ہے۔ بغیر کسی وجہ کے مصری جیلوں میں موجود ان قیدیوں نے 16 روز سے بھوک ہڑتال کر رکھی ہے، ان کی فی الفور رہائی اب ضروری ہو گئی ہے۔