اسلامی تحریک مزاحمت "حماس”کے سیاسی شعبے کے رکن اور تنظیم کے خارجہ امور کے نگران اسامہ حمدان نے کہا ہے کہ ا ن کی جماعت کی جانب سے قومی وحدت کے لیے پیش کردہ فارمولے میں اسرائیل کا فلسطین سے تسلط ختم کرنا، صہیونی ریاست کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کے مذاکرات کا خاتمہ اور مسلح مزاحمت اس کے اہم ترین نکات ہیں.ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون ختم کردیا جائے تو مفاہمت خود بخود ہو جائے گی. اردنی اخبار”السبیل” کو انٹرویو دیتے ہوئے حماس کے رہ نما نے کہا کہ حماس کی جانب سے فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت کے لیے پیش کردہ فارمولہ عرب ممالک کے ہاں بھی پسند کیا گیا ہے اور اسے اہمیت دی جا رہی ہے. خاص طور پر فلسطینی اتھارٹی کے مذاکرات کاروں کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ سمجھوتوں کے انکشافات کے بعد فلسطین کے اندر کی صورت حال عوامی رائے عامہ بھی تبدیل ہو چکی ہے. انہوں نے حماس اور فتح کے درمیان مفاہمتی مذاکرات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں دونوں جماعتوں کے درمیان ہونے والی بات چیت سے سبق سیکھناچاہیے. کیونکہ فلسطینی اتھارٹی اور فتح کی جانب سے مذکرات کے دوران جو تجاویز پیش کی جاتی تھیں انہیں اس وقت بھی فلسطینی عوام پسند کرنے کو تیار نہ تھے اور نہ ہی آج انہیں تسلیم کرنے پر تیار ہیں. ایک دوسرے سوال کے جواب میں اسامہ حمدان نے کہا کہ حماس کا قومی مفاہمت کا فارمولہ کسی ایک گروہ ، جماعت یا طبقے کے لیے نہیں بلکہ تمام افراد اور جماعتوں کو اس میں مساوی حیثیت دی گئی ہے. حماس مفاہمتی پروگرام میں تمام جماعتوں کو شامل کرنا چاہتی ہے تاکہ حقیقی معنوں میں جامع مفاہمت کی راہ ہموار کی جا سکے. اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لئے قابض صہیونی ریاست کے ساتھ مزاحمت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ تمام فلسطینی جماعتیں صہیونی دشمن کے ساتھ اب بھی اور کسی بھی وقت مزاحمت شروع کرنے پر تیار ہیں. انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں مفاہمت کی راہ میں وہ گروپ رکاوٹ ہے جو صر ف زبانی طور پر فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت کی بات کرتا ہے لیکن عملاً اس نے اسرائیل کے ساتھ اپنے رابطے اور تعلقات قائم کیے ہیں. فلسطینی اتھارٹی کو دو میں سے ایک راستہ منتخب کرنا ہو گا. یا تووہ اسرائیل ہی کے ساتھ تعلقات استوار کرے اور مفاہمت کی بات نہ کر یا مفاہمت کے لیے اسرائیل سے تعلقات کو خیر آباد کہہ دے. ورنہ اس کی جانب سے انتشار کے خاتمے کے دعوے کبھی پورے نہیں ہو سکیں گے.