فلسطینی صدر محمود عباس کی جماعت "الفتح "کے ایک سرکردہ رہ نما نے انکشاف کیا ہے کہ صدر ابو مازن کےخلاف ان کی جماعت کے اندر سے ایک گروہ سرگرم ہے جو انہیں اقتدار سے ہٹاتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی میں جوہری تبدیلیاں لانا چاہتا ہے. مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق فتح کے ایک مرکزی لیڈر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فرانسیسی خبررساں ایجنسی کو بتایا کہ محمود عباس نے حال ہی میں اپنے زیرا نتظام سیکیورٹی اہلکاروں کو ہدایات دی ہیں کہ فتح کے ان لیڈروں کےساتھ مذاکرات کا عمل شروع کریں جو فلسطینی اتھارٹی پر تنقید کرتے ہوئے عرب ممالک میں آنے والے انقلابات کی روشنی میں اتھارٹی میں جوہری تبدیلیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں. فتح کے عہدیدار نے بتایا کہ مغربی کنارے کے شہروں رام اللہ، جنین اور نابلس میں فتح کے اہم رہ نماٶں نے تنظیم میں بنیادی اصلاحات لانے کا مطالبہ کیا ہے. صدرعباس کے اور ان کے نظام کے خلاف متحرک لیڈروں کا کہنا ہے کہ وہ فتح کی موجودہ داخلہ اور خارجہ پالیسی کے مطمئن نہیں اورزیادہ دیر تک اس پالیسی کوبرداشت نہیں کیا جا سکتا. ذرائع نے بتایا کہ فلسطینی اتھارٹی اور صدرعباس کے خلاف سرگرم فتح کے سرکردہ لیڈروں نےآپس میں خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے. ان ملاقاتوں میں تیزی کے ساتھ ہی فلسطینی صدر کے زیرانتظام ملیشیا نے صدرمخالف رہ نماٶں کوخبردار کیا ہے کہ وہ اتھارٹی کے خلاف کسی زیرزمین گروہ اور کارروائی سے باز رہیں ورنہ ان سے سختی سے نمٹا جائے گا. ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ فتح کے کئی سرکردہ رہ نماٶں نے عرب ممالک میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں کے تناظرمیں فلسطین میں نظام کی تبدیلی کے حوالے سے حماس اور دیگر فلسطینی دھڑوں سے بھی ملاقاتیں کی ہیں.اس طرح کی ملاقاتوں کے منظرعام پر آنےکے بعد فلسطینی اتھارٹی بالخصوص محمود عباس گروپ سخت تشویش میں مبتلا ہے. ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ فتح کے اندر صدر محمودعباس کےخلاف سرگرم ہونے والا گروپ کوئی موثرعوامی انقلاب کا باعث تو نہیں بن سکتا تاہم اس نے کم ازکم صدر محمود عباس اوران کے سسٹم میں شامل اعلیٰ شخصیات کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے. فتح کے عہدیدار نے بتایا کہ تنظیم میں صدرمحمود عباس کےخلاف گروپ نہ صرف ابو مازن کی پالیسیوں کےخلاف ہے بلکہ مستعفی وزیراعظم سلام فیاض پربھی کڑی تنقید کررہا ہے. فتح کے اندر اپنا الگ موقف رکھنے والے اس گروپ کا کہنا ہے کہ سلام فیاض کو آئندہ فلسطینی وزیراعظم نہیں بنایا جانا چاہیے.