(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) اس معاہدے کو معاہدہ ابراہیم کا نام دینے کا مقصد یہودی عوام کو عرب خطے سے جوڑ کر ریاست اسرائیل کو قانونی حیثیت دلانا ہے۔
ذرائع کے مطابق گزشتہ رات وہائٹ ہاوس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام نہاد منصوبے صدی کی ڈیل پر متحدہ عرب امارات اور بحرین نے دستخط کئے جس کے حوالے سے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سکریٹری صائب عریقات نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحرین اور متحدہ عرب امارات نے معاہدے پر دستخط کر تے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ مسجد اقصی پر صہیونی ریاست کو مکمل خودمختاری حاصل ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ نے دو چیزوں کا تذکرہ کیا ان میں سے پہلی بات یہ تھی کہ اسرائیل کو فلسطین کی سرزمین سے منسلک نہ کیا جائے جس کے جواب میں نیتن یاہو نے اپنی تقریر میں کہا کہ صدی کے معاہدے کے مطابق صرف امن کا حصول اہم بات ہے جبکہ دوسری بات یہ تھی کہ فلسطینی عوام کے حقوق کا دارو مدار مسئلہ فلسطین کے حل کی راہ پر مبنی ہے جس کے بارے میں نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ کوئی بھی جو 1967 کی سرحدی حدود کے بغیر اور یروشلم کا ذکر کیے بغیر دو ریاستوں کے بارے میں بات کرتا ہے وہ فلسطینی ریاست کے بارے میں بات کر رہا ہے جس کا وجود نہیں۔
عریقات نے واضح کیا کہ ٹرمپ کے داماد اور ان کے مندوب جیرڈ کشنر 1967 کی سرحدوں پر فلسطین کو ریاست کہنے کے الفاظ کی اجازت نہیں دے سکتے اور آج جو کچھ ہوا اس کا مطلب اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرنے والے معاہدے پر دستخط کرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چاہےاسرائیل اور ٹرمپ بیت المقدس میں اپنے سفارت خانوں کو کھولنے کے لئے دنیا کے تمام ممالک کے پاس جائیں تو بھی اس سے معاملہ ختم نہیں ہوگا کیوں کہ فلسطینی سرزمین پر قبضے کا مسئلہ اب بھی موجود ہے اور وہائٹ ہاؤس میں جو کچھ ہوا وہ بہت افسوسناک ہے لیکن صہیونی طاقتیں فلسطینی عوام پر زبردستی دباؤ ڈالنے سے اپنا مقام تبدیل نہیں کرا سکیں گی ہماری عوام اپنی سرزمین پر ثابت قدم رہے گی اور آخر کار ہم اپنی سرزمین صہیونیوں کے قبضے سے آزاد کرالیں گے ۔