عالم اسلام کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنےوالے ایک سو کے قریب ممتاز علماء کرام نےمصر اور تیونس میں آئے تازہ انقلابات کی حمایت کی ہے. علماء کا کہنا ہے کہ عرب ممالک میں آیا انقلاب عالم اسلام کے نئے دور کا آغاز ہے. یہ انقلابات عالم اسلام کے عروج کے ساتھ ظلم و استبداد کے خاتمے اور قوموں کو دبائے رکھنے کی سیاست کے اختتام کی نوید ثابت ہوں گے. مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق علماء کے ایک مشترکہ بیان میں مصر اور تیونس کے سابق صدور کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیاہے.بیان میں کہا گیا ہے کہ "حُسنی مبارک اور زین العابدین بن علی نے اپنے ممالک میں اسلامی شریعت کا مذاق اڑایا، اپنی عوام کوذلت رسوائی سے دوچار کیا، قومی دولت پرقبضہ کر کے عوام کوغربت کی دلدل میں دھکیلا. انتظامی، مالیاتی اور سیاسی شعبوں میں پرلے درجے کی بدعنوانی کی اور مخالفین کو جیلوں میں ڈال کر ان کے ساتھ نہایت سفاکانہ سلوک روا رکھا گیا”. علماء نے اپنے مشترکہ بیان میں مروجہ جمہوری نظام پربھی سخت تنقید کی ہے. ان کا کہنا ہے کہ موجودہ جمہوری نظام بذات خود ظلم ہی کی ایک دوسری شکل ہے. عالم اسلام میں اس طرح کے طرز حکومت کی کوئی گنجائش نہیں. کیونکہ جمہوریت میں عوام کو حاکمیت کا درجہ حاصل ہوتا ہے. عوام اگر حرام چیزوں کے حلال کرنے کے حق میں رائے دیں تو تسلیم کرلی جاتی ہے،خدا اور اس کے رسول کے باغیوں کو بھی حکمران بنا دیا جاتا ہے.شراب اورسود خوری کی اجازت عام ہوتی ہے اور مساجد میں اذان اور مسلمان خواتین کے حجاب پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے. لہٰذا اسلامی ممالک میں ایسا طرزحکومت جو اسلامی تعلیمات کے متصادم ہو اسے کسی صورت میں مستحسن نہیں قرار دیا جا سکتا. اس کے مقابلے میں اسلام شورائیت پر مبنی نظام حکومت کا تصور پیش کرتا ہے. شورائیت میں اقتداراعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ اور ریاست کا قانون اس کا قرآن اور رسول اللہ کی سنت قرار دیے جاتے ہیں.جن چیزوں کی اسلام نے ممانعت کر دی ہےاسے حکمران جائز نہیں کر سکتا ہے اور نہ ہی مباح کو حرام کرنے کا مجاز ہوتا ہے.رہا عوام الناس کے ووٹ دینے کا معاملہ تو یہ صرف زندگی کے مباح امور میں تو جائز ہے لیکن حکومت جیسے حساس ترین معاملے میں اس کی گنجائش ہرگز نہیں ہوتی. علماء نے مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ سیکولر،قوم پرست اور کیمونسٹ جماعتوں میں شمولیت سے اجتناب برتیں. ایسی جماعتوں کو اپنے معاشرے میں پنپنے کا موقع نہ دیں اور نہ ہی ان جماعتوں کے ارکان کو اپنے حکومتی امیدوار نامزد کریں. بیان میں مصراور تیونس کی خواتین کومخاطب کرتے ہوئےکہا گیا ہے کہ اُنہیں حسنی مبارک اور زین العابدین بن علی جیسے لادین حکمرانوں سے نجات ملی ہے. اب وہ اپنے سابق حکمرانوں کی رائج کردہ معصیت کی تمام شکلوں کا انکار کر دیں. اسلام پردے اور لباس کی پابندی کریں اور اسلام کی سنہری روایات کو اپنا زیور بنائیں.