نئے عیسوی سال کےآغازمیں مصری ساحلی شہر اسکندریہ میں ایک عیسائی گرجا گھرمیں ہوئے دھماکوں کے بارے میں ایک نئی تحقیق سامنے آئی ہے. مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق برطانوی انٹیلی جنس اداروں نےاپنی ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اسکندریہ چرچ پر حملے میں خود مصری محکمہ داخلہ کے اہلکار ملوث تھے. دوسری جانب اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” نے برطانوی تحقیقاتی رپورٹ کو درست سمت تحقیقات قرار دیتےہوئے کہا کہ رپورٹ میں جو کچھ کہا گیا ہے اس نے حماس کے موقف کو درست ثابت کیا ہے. برطانوی انٹیلی جنس اداروں کے زیرانتظام کی جانے والی تحقیقات کے بعد ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ مصری پولیس کو اسکندریہ میں اتنے حساس مقام پر بم دھماکوں کی کسی سازش کا علم نہ ہو. رپورٹ میں استفسار کیا گیا ہے کہ آیا مصری پولیس اور سیکیورٹی اداروں نے اسکندریہ جیسے حساس مقام پر سیکیورٹی کے خاطرخواہ انتظامات کیوں نہیں کیے. رپورٹ کے مطابق اسکندریہ گرجا گھر میں ہوئے دھماکوں میں کئی ایسے سوالات موجود ہیں جن سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ان دھماکوں میں مصری محکمہ خارجہ کے حکام بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث ہیں. دوسری جانب حماس نے اپنے ایک بیان میں برطانوی پولیس کی رپورٹ کو درست سمت تحقیقات قرار دیا ہے. حماس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ برطانوی انٹیلی جنس حکام نے جو تحقیقات کی ہیں وہ کافی حدتک تنظیم کے موقف سے ہم آہنگی رکھتی ہیں. خیال رہے کہ اس سال کے شروع میں اسکندریہ گرجا گھر میں ہوئے دھماکوں میں کم ازکم 25 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے. مصری محکمہ داخلہ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ یہ حملے فلسطینی شہر غزہ کی پٹی میں موجود القاعدہ کی ذیلی شاخ جیش الاسلام نے کیے ہیں. حماس نے جو کہ غزہ پر حکمرانی کر رہی کا کہنا ہے کہ شہرمیں القاعدہ کا کوئی وجود نہیں اور نہ ہی ان دھماکوں میں کوئی فلسطینی ملوث ہے.