مرتب کردہ : صابر کربلائی
مرکزی سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
www.plfpakistan.com
یکم اکتوبر کو سر زمین فلسطین پر شروع ہونے والی دفاع قبلہ اوّل کی عوامی جدوجہد کہ جسے دنیا بھر میں فلسطینیوں کی تیسری تحریک انتفاضہ القدس کا نام دیا گیا ہے اس تحریک میں مظلوم فلسطینی ایک طرف ہاتھوں میں پتھر لئے قبلہ اوّل کے دفاع کے لئے غاصب صیہونی افواج کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے تو دوسری طرف اپنی جانوں کا نذارانہ دینے سے بھی دریغ نہیں کر رہے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ غاصب صیہونی افواج جہاں ان مظلوم نہتے فلسطینیوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہی ہیں وہاں معصوم اور کم عمر بچوں کو زندانوں میں قید کیا جا رہا ہے، گھروں کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہے۔
غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے جن جرائم اور فلسطینیوں کے حقوق کی پائمالی اور خلاف ورزی کی جا رہی ہے ان بنیادی حقوق میں مندرجہ ذیل ہیں ۔
۱۔ حق زندگی کی خلاف ورزی۔۔۔قتل و غارت گری
۲۔حق آزادی کو سلب کرنا۔۔۔فلسطینیوں کو قید و بند کرنا
۳۔صیہونی آباد کاری ، صیہونی آباد کاروں کی جانب سے دہشت کا پھیلاؤ ، القدس کو یہودیانے کی کوشش
۴۔فلسطینی عوام کے گھروں کی مسماری اور گھروں سے بے دخلی کی دھمکی
۵۔کھیت کھلیانوں اور باغوں کو نقصان پہنچانا
۶۔اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنا۔۔۔صحافیوں کے خلاف کاروائیاں اور تشدد
درج بالا نقاط اس لئے بیان کئے گئے ہیں کہ اندازہ لگایا جائے کہ کس طرح صیہونیوں نے یکم اکتوبر سے اب تک مظلوم فلسطینیوں کو اپنے سفاکانہ مظالم کا نشانہ بنا رکھا ہے صرف فلسطینی ہی نہیں بلکہ وہاں پر موجود دنیا بھر کے مختلف ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے رضا کاروں کو بھی نشانہ بنایا جا رہاہے۔آئیے غاصب اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے درج بالا مندرجات کے پہلے حصے پر بات کرتے ہیں۔
۱۔ حق زندگی کی خلاف ورزی۔۔۔قتل و غارت گری:
یوں تو غاصب اسرائیل نے سنہ انیس سو اڑھتالیس سے ہی فلسطینیوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام شروع کر دیا تھا اور فلسطینیوں سے ان کا حق زندگی سلب کر لیا گیا تھا اس کے ساتھ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بھی بے دخل کیا گیا جس کے نتیجے میں آج تک لاکھوں فلسطینی مہاجر شناخت کے ساتھ مختلف ممالک میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور اس امید کے ساتھ وابستہ ہیں کہ ایک نہ ایک دن وہ اپنے وطن ضرور واپس لوٹ آئیں گے۔
تازہ ترین حالات میں غاصب اسرائیل نے یکم اکتوبر سے قبلہ اوّل کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع کیا ہے اور اس کے نتیجے میں قبلہ اوّل کا دفاع کرنے والے فلسطینی نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو اپنی سفاکیت کا نشانہ بنانا شروع کیا ہے اور حق زندگی سلب کی ہے اس حوالے سے اب تک تازہ ترین موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ۱۷ نومبر کو فلسطینی ہیلتھ منسٹری کی جانب سے جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطاق ۸۹فلسطینی جن میں ۱۸ بچے اور ۴ خواتین شامل
ہیں ، صیہونی افواج کی درندگی کا نشانہ بن کر شہید ہو گئے ہیں جبکہ یکم اکتوبر سے اب تک صیہونی افواج کے حملوں میں زخمی ہونے والوں کی کل تعداد دس ہزار بتائی گئی ہے۔فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غاصب اسرائیلی افواج روزانہ اوسطاً دو فلسطینیوں کو شہید جبکہ ۲۱۷کو زخمی کر رہی ہیں۔وزارت صحت کے مطابق ۱۴۵۰ فلسطینیوں کو صیہونی فوجیوں نے غزہ اور مغربی کنارے میں براہ راست گولیوں کا نشانہ بنایا ہے ، ۱۰۶۵ کو ربڑ کی گولیوں سے نشانہ بنایا گیا،اسی رپورٹ کے مطابق ۶۵۰۰ فلسطینی غاصب صیہونی افواج کی جانب سے اندھا دھند استعمال کی جانے والی خطر ناک زہریلی آنسو گیس کی زد میں آ کر متاثر ہوئے ہیں جبکہ ان میں۲۵۵ افراد ویسے بھی شامل ہیں جنہیں شدید زخمی حالت میں اسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے اور ان کو خطرناک قسم کی چوٹ آئی ہے جبکہ ۲۵ فلسطینی جوان صیہونی اسرائیلی فوج کی جانب سے جان لیوا اور ممنوعہ قسم کی زہریلی گیسوں کے استعمال سے متاثر ہو کر اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
۲۔حق آزادی کو سلب کرنا۔۔۔فلسطینیوں کو قید و بند کرنا:
دوسری اہم بات یہ ہے کہ غاصب صیہونی ریاست نے جہاں فلسطینیوں کا قتل عام شروع کر رکھا ہے وہاں فلسطینیوں کے لئے آزادی سے زندگی بسر کرنا بھی جرم بنا دیا گیا ہے ، یوں تو صیہونی زندانوں میں ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی قید و بند کی مشکلات میں ہیں تاہم یکم اکتوبر سے شروع ہونے والی فلسطینیوں کی عوامی جد وجہد ’’انتفاضہ القدس‘‘ کے بعد سے غاصب اسرائیلی افواج نے تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب تک دو ہزار سے زائد فلسطینیوں کو جن میں ایک سو کے لگ بھگ معصوم کمسن بچے اور بڑی تعداد میں خواتین بھی شامل ہیں گرفتار کر لیا ہے،خود اسرائیلی کمیشن برائے جیل خانہ جات کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ یکم اکتوبر سے اب تک گرفتار ہونے والے فلسطینیوں میں ساٹھ فیصد کمسن بچے ہیں جن کا تعلق القدس شہر سے بتایا گیا ہے۔قابل غور بات ہے کہ غاصب صہیونی ریاست نے صرف 350جیلیں بچوں کے لئے بنا رکھی ہیں۔
۳۔صیہونی آباد کاری ، صیہونی آباد کاروں کی جانب سے دہشت کا پھیلاؤ ، القدس کو یہودیانے کی کوشش:
تیسرا اہم ترین مسئلہ یا غاصب اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور پائمالی میں شدت پسند یہودی آباد کاروں کا پھیلاؤ اور ان کی آباد کاری کے ساتھ ساتھ ان کی جانب سے فلسطینیوں پر صیہونی افواج کے ساتھ مشترکہ حملے اور دہشت گکا پھیلاؤ ہے کہ جس کا بنیادی مقصد قبلہ اوّل بیت المقدس کو یہودیانے کی کوشش ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حال ہی میں جارح صیہونی ریاست نے مزید ۸۰۰آباد کاری یونٹ بنانے کا عندیہ دیا ہے ۔اس ے پہلے ہی ان شدت پسند یہودی آباد کاروں کو فلسطینی زمینوں کا ایک بڑا حصہ ان کی فیکٹریوں اور رہائشی منصوبوں کے لئے الاٹ کیا جا چکا ہے۔جن فلسطینی علاقوں سے زمینیں صیہونی آباد کاروں کو دی گئی ہیں ان میں بیت لحم، یعکیر، ایتمار، مینیاگائوں، کعسان گائوں، البئعر، بیتن،سنجیل، جانیہ،ترموسیہ،بیت فوریک، ازموت، تانا، ال لبان، دیر الحاتب، شوفہ، کفر ادیک، الدیرات، یوسف اور دیگر مقامات شامل ہیں۔یہ وہ علاقے ہیں کہ جہاں نہ صرف فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے وہاں یہودی آباد کاری عمل میں لائی گئی ہے بلکہ آئے روز انہی شدت پسند یہودی آباد کاروںکے ہاتھوں درجنوں فلسطینیوں کو مختلف قسم کے مظالم کا سامنا بھی ہے۔
یکم اکتوبر سے اب تک زکر کئے گئے در ج بالا علاقوں اور قصبوں میں صیہونی آباد کاروں کی جانب سے درجنوں مرتبہ کمسن بچوں کو کہ جن کہ عمریں 11اور 14سال کے درمیان تھیں انہیں اغوا کیا گیا اور زدو کوب کا نشانہ بنایا گیا اور مختلف علاقوں میں بالخصوص القدس شہر میں انہی شدت پسند یہودیوں نے متعدد مرتبہ راہ چلتے فلسطینیوں کو اپنی گاڑیوں تلے روند دیا ، جس کے نتیجے میں درجنوں فلسطینی شدید زخمی ہوئے۔
۴۔فلسطینی عوام کے گھروں کی مسماری اور گھروں سے بے دخلی کی دھمکی:
چوتھا اہم ترین مسئلہ اور غاصب اسرائیل کی طرف روا ظلم اور فلسطینیوں کے بنیادی حق کی خلاف ورزی یہ ہے کہ سنہ48ء کے بعد سے اب تک یوں تو فلسطینیوں کی کوئی جگہ یا زمین محفوظ نہیں رہی تاہم یکم اکتوبر کے بعد سے اب تک مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ غاصب اسرائیلی افواج اور صیہونی آباد کاروں نے مشترکہ کاروائیوں کے نتیجے میں فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری کا عمل شروع کررکھا ہے اور بعض مقامات پر فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں جبکہ ان صیہونی آباد کاروں کو غاصب ریاست کی مکمل سرپرستی اور تعاون حاصل ہے۔
یکم اکتوبر سے صیہونی فوج اور یہودی آباد کاروں کی مشترکہ کاروائیوں کے نتیجے میںیروشلم میں اب تک 8بڑی عمارتوں کو کہ جو فلسطینی عوام کی رہائش گاہ تھیں تباہ و برباد کر دیا گیا ہے،مزید یہ کہ صیہونی فوجیوں نے 9مزید گھروں کو بھی نوٹس دے دیا ہے کہ جلد ہی ان گھروں کو نیست و نابود کر دیا جائے گا،جبکہ متعدد فلسطینی مالک مکانوں پر تین ہزار ڈالر مالیت کے جرمانے بھی عائد کئے گئے ہیں۔
۵۔کھیت کھلیانوں اور باغوں کو نقصان پہنچانا:
فلسطینی کسانوں اورمالیوں کے کھیتوں اور باغوں کو نقصان پہنچانا صیہونیوں کے لئے کوئی نیا کام نہیں لیکن یکم اکتوبر کے بعد سے صیہونی افواج اور بالخصوص یہودی آباد کاروں کے جانب سے اس معاملے میں بھی تیزی آئی ہے کاور یہی تیزی اس بات کی غمازی کر رہی ہے کہ صیہونی ریاست کی طرح صیہونی آباد کار بھی فلسطینیوں کی تیسری انتفاضہ القدس سے شدید خوفزدہ ہیں۔
ماہ اکتوبر جو کہ فلسطین میں فلسطینی کسانوں کے لئے اس لئے بھی زیادہ عمدہ ماہ قرار پاتا ہے کیونکہ اس ماہ میں زیتون کی فصل کا موسم ہوتا ہے او ر بڑے پیمانے پر زیتون کی پیداوار حاصل کی جا تی ہے لیکن اس مرتبہ یکم اکتوبر سے جاری انتفاضہ القدس کے بعد صیہونی افواج نے جہاں قتل و غارت گری، قید و بند، گھروں کی تباہی، مسماری، زمینوں پر قبضے، یہودی آباد کاری کے عمل کو تیز کرنے کی کوشش کی ہے وہاں فلسطینی کسانوں کی زمینوں پر زیتون کے درختوں کو بھی صیہونی افواج کے مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہے اور کسی جگہ فلسطینی کسانوں کو فصل کاٹنے نہیں دی گئی تو کسی جگہ پورے کے پورے درخت ہی نذر آتش کر دئیے گئے یا پھر درختوں کو کاٹ دیا گیاہے۔ یہ سب جو غاصب اسرائیلی افواج کی جانب سے سامنے آیا ہے واضح طور پر اس بات کا عندیہ ہے کہ پورے کا پورا اسرائیل اور اس کے اندر پائے جانے والے صیہونی فلسطینیوں کی کامیاب اور جاری رہنے والی انتفاضہ القدس سے پریشان ہیں اور شدید تکلیف میں بھی ہیں۔
چھٹا مسئلہ جو ہماری صحافی برادری سے منسلک ہے کہ جو ہر قسم کے حالات میں خبروں کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لئے سرگرم عمل رہتی ہے البتہ کچھ نام نہاد مغربی ذرائع ابلاغ ایسے بھی ہیں جو اصل حقائق کو یا تو توڑ موڑ کر بیان کرتے ہیں یا پھر اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لئے خبر کو منفی رخ میں لے جاتے ہیں جس کے باعث دنیا کے اندر متضاد رائے جنم لیتی ہے، بہر حال سچ کا ساتھ دینے والے زیادہ لوگ آج بھی دنیا میں موجود ہیں اور یکم اکتوبر سے فلسطین میں غاصب اسرائیل کے قبلہ اوّل کے خلاف جاری اقدامات کو روکنے اور دفاع قبلہ اوّل کے لئے جاری فلسطینیوں کا ’’انتفاضہ القدس‘‘ سچائی کا ساتھ دینے والے حق گو او ر بے باک صحافیوں کی بدولت دنیا کے منظر نامے پر ابھرتا رہا ہے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔جہاں فلسطینی عوام غاصب اسرائیل کے مظالم سے نہیں بچ پائے وہاں صحافی برادری بھی فلسطینیوں کی طرح غاصب اسرائیل کے مظالم کا نشانہ بن رہی ہے ۔
یکم اکتوبر سے جاری انتفاضہ القدس کی جد وجہد کو رپورٹ کرنے والے درجنوں صحافیوں کو کہ جن کا تعلق فلسطین سمیت مختلف ممالک سے ہے ان کو اسرائیلی
فوجیوں نے براہ راست گولیوں کا نشانہ بنایا، اسرائیلی افواج کے ہاتھوں ظلم و تشدد کا نشانہ بننے والے صحافیوں کی کل تعداد اب تک 40ہے کہ جن کا جرم صرف یہ ہے کہ انہوں نے فلسطین کے حقائق کو دنیا بھر میں آشکار کرنے کی کوشش کی اور سچائی بیان کی۔حالیہ دنوں موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق
غاصب صیہونی افواج نے چند صحافیوں کو گرفتار بھی کر لیا ہے جن میں الحریت ریڈیو سے تعلق رکھنے والے محمد ابو صبیح، نبیل صادر اور دیا حمودہ شامل ہیں۔